ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک حکام نے جنوبی ضلع اضنہ کے علاقے ’’کاراتاش‘‘ کے نواح سے اسرائیلی فضائیہ کے زیر استعمال جاسوس طیارے کی باقیات حاصل کرلی ہیں۔ تباہ شدہ طیارے تک رسائی کے بعد ترکی کو اپنے خلاف اسرائیلی جاسوسی کے ثبوت بھی مل گئے ہیں۔
کثیر الاشاعت ترک روزنامے ’’یانی سفاک‘‘ کے مطابق ایک ترک ماہی گیر کو اسرائیلی جاسوس طیارے ’’ھیرون‘‘ کا ٹکڑا ملا جس نے فوری طور پر ساحلی گارڈز کو مطلع کیا جس کے بعد گارڈز نے طیارے کی باقیات کو قبضے میں لیکر ترک سکیورٹی فورسز کے خصوصی سیل بھیج دیا ہے۔ ترکی فورسز نے اس ٹکڑے کی مدد سے پانی کے نیچے موجود اسرائیلی جاسوس طیارے تک رسائی بھی حاصل کر لی، اس طیارے کو ’’مرسین‘‘ شہر میں ترک آرمی چیف کے ہیڈ کوارٹر منتقل کر دیا گیا ہے۔
روزنامے کے مطابق ’’ترک فوج کے خصوصی یونٹ کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق زیر سمندر ملنے والے طیارہ اسرائیل فضائیہ کے زیر استعمال ’’ھیرون‘‘ ہے تاہم اس ضمن میں مزید تحقیقات جاری ہیں‘‘
روزنامے کا کہنا ہے کہ حادثاتی طور پر پیش آنے والے اس واقعے کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی آسکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔
ترکی میں اسرائیلی جاسوس طیارے کی موجودگی سے یہ سوال دوبارہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ آیا اسرائیل اور ترک علیحدگی پسند تنظیم ’’کرد لیبر پارٹی‘‘ کے درمیان تعلقات ہیں۔ اس واقعے کے بعد گزشتہ سال اکتیس مئی کو غزہ کی جانب گامزن امدادی قافلے ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ میں شریک ترک بحری جہاز ’’مرمارہ‘‘ پر اسرائیلی بحریہ کے حملے کے روز ہی اسکندریہ میں ترک فوجی اڈے پر دہشت گردی کے ایک حملے میں سات فوجیوں کی شہادت کے واقعے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
روزنامے نے حالیہ دنوں ترکی میں بڑھتے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے اسرائیل کے ہاتھ کے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ ترک بحری جہاز ’’مرمارہ‘‘ پر اسرائیلی فوج کے حملے میں نو ترک رضا کاروں کی شہادت کے بعد ترکی نے اسرائیل سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے ہیں۔ جس کے بعد سے ترکی میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان واقعات کو اسرائیل کی انتقامی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔