خیال رہے کہ ان دنوں بین الاقوامی عدالت انصاف کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں اسرائیلی فوج کے منظم جنگی جرائم کی تحقیقات کی بحث جاری ہے۔ ماہرین اس کے مختلف قانونی پہلووں پر روشنی ڈال رہے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف کے ترجمان فادی عبداللہ نے ’اناطولیہ‘ خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی ادارہ نہیں جو عدالتی تحقیقات کی آزادی میں مخل ہو یا اس پر دباو ڈال سکے۔ عالمی عدالت انصاف مکمل آزادانہ انداز میں کام کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجلس فلسطین کے بارے میں عالمی عدالت کی تحقیقات کو مشروط طور پر معطل کرنے کی مجاز ہوگی تاہم یہ موجودہ وقت میں ابتدائی جائزے کے لیے کی جانے والی تحقیقات میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور عالمی قانون کے ماہر ایمن سلامہ نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کوصرف ایک ادارہ فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات سے روک سکتا ہے، وہ سلامتی کونسل ہے۔ سلامتی کونسل کے پاس اس کا اختیار ہے۔ کونسل نہ صرف عالمی عدالت انصاف کی تحقیقا کو ایک سال تک روک سکتی ہے بلکہ دوبارہ تحقیقات کے لیےبھی کہہ سکتی ہے اور چاہے تو اپنے فیصلے میں تجدید بھی کرنے کی مجاز ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدہ روم کے بنیادی نظام میں سلامتی کونسل کو ایک ’اتھارٹی‘ دی گئی ہے۔ معاہدے کی آئینی شق 16 کے مطابق سلامتی کونسل بین الاقوامی امن وسلامتی کی خاطر آئی سی سی کی تحقیقات کو ایک سال اس سے زیادہ عرصے کے لیے معطل کرنے کی مجاز ہے۔ ایمن سلامہ کا کہنا تھا کہ تعطل کا عرصہ محدود نہیں کونسل جب تک چاہے فیصلہ معطل رکھ سکتی ہے اور وہ ایسا بار بار کرنے کی بھی مجاز ہے۔
مصر کی عین شمس یونیورسٹی سے وابستہ تجزیہ نگار ابراہیم العنانی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے کسی فیصلے یا تحقیقات کو معطل کرنے کے لیے سلامتی کونسل کے پاس اختیار ہے مگر کونسل اس اختیار کو بآسانی استعمال نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ کونسل کے تمام نو ممبران اور مستقل ممبران کے علاوہ غیر مستقل ممبران کی حمایت بھی ضروری ہوتی ہے۔ اگر کوئی ایک ملک بھی اس کی حمایت سے انکار کرے تو کونسل فیصلہ نہیں کرسکتی ہے۔ تمام ارکان کی حمایت حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کو دنیا کا سب سے بڑا با اختیار ادارہ بنانا بھی خطرناک ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عالمی عدالت انصاف کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ عین ممکن ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے باب میں سلامتی کونسل رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ کونسل میں شامل مستقل رکن ممالک میں امریکا نہیں چاہتا کے کہ اسرائیل کے خلاف کسی بین الاقوامی ادارے میں ٹرائل کیا جائے۔
اس سے قبل عدالت انصاف کے ترجمان فادی عبداللہ نے اناطولیہ ایجنسی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات 18 رکنی جوڈیشل بنچ کرے گا۔ یہ تمام جج غیر جانب داری مکمل شفافیت سے تحقیقات کے بعد فیصلے جاری کریں گے۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ عدالت کے کسی فیصلے کو کسی دوسرے ادارے کی جانب سے چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل واحد ادارہ ہے جو آئی سی سی کے فیصلوں کو معطل کرسکتا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین