اسرائیلی فوج فلسطینیوں پر بدترین مظالم ڈھانے میں اپنی سفاکیت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچلا اور ختم کیا جاتا ہے۔ بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جاتا ہے اور زخمیوں کے ساتھ ناروا سلوک بھی ناقابل بیان ہے۔
رپورٹ کے مطابق حال ایک فلسطینی انسانی حقوق کے مندوب نے "الرملہ” نامی اسرائیل جیل میں بیت المقدس کے 26 سالہ ایک نوجوان محمد اسعد سے ملاقات کی۔ اسعد نے انسانی حقوق کے کارکن کو بتایا کہ وہ اپنے چھوٹی بھائی کے ہمراہ عید الاضحٰی کے روز بیت المقدس میں اپنے گھر کے قریب نماز عید کی ادائی کے بعد گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں عربی لباس میں ملوث یہودیوں کے ایک ٹولے نے انہیں روک لیا۔ ان یہودیوں نے پہلے ایک بچے کو بھی روک رکھا تھا اور وہ اسے تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔یہودیوں نے ہمیں بندوق کے زور پر روکا اور دونوں کے ہاتھ پیٹھ پر باندھ کر زمین پر گرادیا۔ یہودی آباد کاروں نے ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر میرے ایک پائوں میں پستول سے گولی مار کر اسے زخمی کردیا۔ میں اور میری بھائی مھتدی دیر تک اسی حال میں پڑے رہے۔ کافی دیر بعد ہمارے قریب اسرائیلی پولیس اہلکار آئے۔ ہم نے انہیں سارواقعہ بیان کیا اور ساتھ ہی کہا کہ میرے پائوں میں گولی ماری گئی ہے اور بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے۔ ایک پولیس اہلکار نے مجھے کوئی 15 میٹر سڑک پر گھیسٹا اور ایک پولیس وین کے قریب لا کر پھینک دیا۔ البتہ میرے بھائی کے بندھ ہاتھ پائوں کھول دیے۔
اب اسرائیلی پولیس اہلکار اور فوجی بھی ہمیں بغیر کسی وجہ کے تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔ ہماری کوئی بات وہ سن ہی نہیں رہے گی۔ سات گھنٹےاسی حال میں گذرنے کے بعد میری حالت بہت بگڑ چکی تھی۔ اسرائیلی پولیس کے غنڈہ گردوں نے مجھے وین میں ڈالا ایک حراستی مرکز لے گئے جہاں میرا نام اور تمام کوائف درج کرنے کے بعد ایک اسپتال لے جایا گیا۔ اسرائیل اسپتال کے یہودی ڈاکٹروں نے کوئی خاص توجہ کیے بغیر ہی عارضی سی مرہم پٹی کی اور مجھے وہاں سے ایک جیل منتقل کردیا گیا۔ میں حیران ہوں کہ ہم نے یہودی آباد کاروں اور پولیس اہلکاروں کو کچھ کہا بھی نہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے مجھے حراست میں لیا اور میں اب بھی بغیر کسی جرم کے جیل میں پابند سلاسل ہوں۔
محمد اسعد کا کہنا ہے کہ جو سلوک اس کے ساتھ کیا گیا یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں وحشیانہ حملوں میں زخمی ہونے والے فلسطینیوں کے ساتھ بھی وہی ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ جرم یہودیوں کا ہوتا ہے اور مگر فلسطینی نوجوان دھر لیے جاتے ہیں، فلسطینیوں ہی کو قصور قرار دیا جاتا ہے۔ اسرائیلی عدالتیں بھی فلسطینیوں کی بات سننا گوارا نہیں کرتیں۔ مجھے جس عدالت میں پیش کیا گیا میں نے وہاں سچ سچ کہا مگر عدالت نے مجھے دوبارہ جیل بھیج دیا۔
یوں ایک طرح سےیہودی آباد کاروں اوراسرائیلی پولیس نے فلسطینی نوجوان کو قتل کرنے کی پوری کوشش کی مگراس کی زندگی بچ گئی