(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) ترکی کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے غزہ پر ہنگامی اجلاس میں فلسطینی عوام کے لیے متحدہ اور مؤثر کارروائی کی اپیل کی، تاہم ان کے بیانات میں تضاد نمایاں رہا۔ انہوں نے کہا: فلسطینی عوام کو ہماری اجتماعی کارروائی کی ضرورت ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ترکی نے امریکہ کی کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا، جبکہ امریکہ غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کی مسلسل مخالفت کرتا رہا ہے۔حقان فیدان نے زور دیا کہ او آئی سی اور مسلم دنیا کو ایک طاقتور اور متحد آواز کے ساتھ بات کرنی چاہیے اور اسرائیل پر مربوط دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ غزہ بحران کا دیرپا حل نکالا جا سکے۔
تاہم، ترکی کی جانب سے امریکہ کی حمایت، جو کہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے، اس دباؤ کی تاثیر پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ میں قحط کا اعلان ہو چکا ہے، جو کہ کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ امدادی سامان کی مسلسل بندش کا نتیجہ ہے۔ یہ حقیقت ترکی کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی کو مزید اجاگر کرتی ہے۔
فیدان نے انکشاف کیا کہ حماس نے قطر اور مصر کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی منصوبے کو قبول کر لیا ہے اور ترکی، قطر، مصر اور امریکہ کی ان کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ یہ حمایت اس وقت معنی خیز ہے جب امریکہ اب تک اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں پانچ مرتبہ اسرائیل کی حمایت میں غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کی مخالفت کر چکا ہے۔ ترکی کا یہ موقف اس کی خارجہ پالیسی میں ایک واضح دوغلے پن کو ظاہر کرتا ہے، جہاں وہ ایک طرف فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف ان طاقتوں کی حمایت کرتا ہے جو ان کے خلاف ہیں۔ان کا کہنا تھا: معاہدہ قریب ہے، لیکن حملہ آور فریق (اسرائیل) کو بھی اس پر رضامند ہونا ہوگا۔
یہ بیان ترکی کی کمزور پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے، جہاں وہ اسرائیل پر حقیقی دباؤ ڈالنے کے بجائے محض زبانی جمع خرچ کر رہا ہے، جبکہ اس کے اتحادی اسرائیل کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔