فلسطین میں رواں ماہ میں اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی فلسطینی تحریک انتفاضہ کو عالمی ذرائع ابلاغ بھی پوری طرح کوریج دے رہےہیں۔ اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش امریکی اخبارات نے بھی مخصوص زاویوں سے تحریک انتفاضہ پر تجزیے اور تبصرے شائع کرنا شروع کیے ہیں۔
امریکا کے ایک کثیرالاشاعت روزنامہ”نیویارک ٹائمز” نے اپنی حالیہ رپورٹ میں تحریک انتفاضہ کے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کےدرمیان پچھلے ایک عشرے پر محیط سیکیورٹی تعاون پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیاہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ تحریک انتفاضہ نے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی تعاون کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار گومگوں کا شکار ہیں۔ وہ ایک جانب فلسطینیوں کو اسرائیل کےخلاف مزاحمتی کارروائیوں سے روکنے کی بات کرتے ہیں دوسری جانب اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کا بھی رونا روتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عملا فلسطینی اتھارٹی کی پولیس فلسطینیوں کو اسرائیل کے خلاف کارروائیوں سے روکنے میں بری طرح ناکام ہے۔اخباری تجزیے میں کہا گیا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران مغربی کنارے میں اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی پرتشدد مظاہروں کی لہر میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ یہ قرار دی جا رہی ہے کہ فلسطینی سیکیورٹی ادارے خود بھی فلسطینی عوام سے خوف زدہ ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ فلسطینی شہریوں کو اسرائیل کے خلاف مظاہروں سے روکتے ہیں تو عام کے غم و غصے کا رخ ان کی طرف مڑ سکتا ہے۔
امریکا کی شیکاگو یونیورسٹی سے وابستہ سوشل سائنسز کے پروفیسر انڈرو کلارنو کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی حالیہ عوامی مزاحمتی تحریک نے سنہ 1994 ء میں طے پائے فلسطین ۔ اسرائیل معاہدے”اوسلو” کی ناکامیوں کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔اس تحریک نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطینی سیکیورٹی فورسز میں عوامی مظاہروں کی لہر روکنے کی سکت نہیں ہے۔ اس لیے فلسطینی ملیشیا عوام کے سامنے عملا بے بس ہوچکی ہے۔
امریکی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی سیکیورٹی حکام کے درمیان تعاون کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ دونوں فریق مشتبہ فلسطینیوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ کریں گے۔ نیز فلسطینی پولیس اپنے شہریوں کو ان حساس مقامات کی طرف جانے سے سختی سے روکے گی جہاں فلسطینی اور اسرائیلی آبادیاں آپس میں ملتی ہیں۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے میں اسرائیل کے ساتھ کورآرڈی نیشن کا ایک فائدہ فلسطینی اتھارٹی کو سیاسی حوالے سے بھی پہنچ رہا تھا کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے اور اسرائیلی فوج مل کر صدر عباس کی مخالف سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کی سیاسی قوت کچلنے میں مصروف تھے۔ مغربی کنارے میں حماس کی سیاسی بالادستی کو نہ صرف اسرائیل بلکہ خود صدر عباس اور ان کی جماعت تحریک فتح اپنے سیاسی مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ سمجھتے رہے ہیں۔
اگرچہ تحریک فتح کے ایک مرکزی رہ نما رافت علیان نے "نیویارک ٹائمز” کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہم اسرائیل کے چوکیدار نہیں بن سکتے” تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک فتح میں ایسی آوازیں موجود ہیں جو اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کی حامی ہیں مگر فلسطینی پولیس میں تحریک انتفاضہ کو دبانے اور اسرائیل کے ساتھ ماضی کی طرح سیکیورٹی تعاون کو فروغ دینے کی صلاحیت بدستور موجود ہے۔