مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کے سرکاری اقتصادی ادارے بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ بن گوریون ہوائی اڈے پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں کے نتیجے میں بین الاقوامی پروازیں معطل ہونے سے درآمدات و برآمدات میں 26 اعشاریہ چار فی صد کمی آئی ہے۔
اخبار معاریف کی رپورٹ کے مطابق حکومتی سطح پر جاری اعدادو شمار اصل نقصان کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔ غزہ جنگ میں مجموعی طور پر اسرائیل کو جس معاشی خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے اسے ابھی تک شمار قطار میں بھی نہیں لایا جا سکا ہے۔
متبادل ہوائی اڈے کی تلاش
فلسطین میں قائم اسرائیلی ہوائی اڈوں پر غیرملکی پروازوں کے معطل ہونے کے کئی دوسرے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ ممتاز فلسطینی دانشور اور سیاحت کے امور کے ایک عہدیدار محمد بشار نے مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں قائم اسرائیلی ہوائی اڈوں پر پروازوں کی منسوخی یا تاخیر معمول کی بات ہے لیکن وسط جولائی کے بعد جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو تاخت وتاراج کرنا شروع کیا تو فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں نے اسرائیلی شہری دفاع اور فضائی سروس کو غیرمعمولی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ خاص طور پر للد شہرمیں قائم اسرائیل کے "بن گوریون” ہوائی اڈے کی پروازیں قریبا ایک ماہ تک تعطل کا شکار رہی ہیں جس کے نتیجے میں اسرائیل کا تجارت اور سیاحت کا شعبہ بھی براہ راست متاثر ہوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں محمد بشار کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں بن گوریون ہوائی اڈے کی بدنامی ہو رہی ہے اور اسے دنیا کے خطرناک ترین ہوائی اڈوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ گو کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹوں سے کسی غیرملکی فضائی کمپنی کے طیارے کو نقصان تو نہیں پہنچا ہے لیکن جس خوف کی کیفیت سے غیرملکی فضائی کمپنیاں گذرتی رہی ہیں ان کے لیے وہ خوف ہی کافی ہے۔
اسرائیل کو اس لیے بھی زیادہ معاشی خسارے کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کا بن گوریون جیسا بڑا بین الاقوامی ہوائی اڈا ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند ہو گیا۔ غیرملکی پروازوں کے لیے صرف اردن سے متصل ایک دوسرے ہوائی اڈے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیلی حکام بن گوریون کے متبادل کسی دوسرے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
اسرائیلی حکومت کو یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ غزہ کی پٹی میں موجود مزاحمت کاروں نے کم وبیش اسرائیل کے تمام شہروں تک مار کرنے والے راکٹ اور میزائل حاصل کر لیے ہیں۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ کسی بھی وقت دوبارہ جنگ چھڑنے کی صورت میں بن گوریون پہلا ہوائی اڈا ہو گا جس پر فلسطینی راکٹوں کی بارش ہوگی۔
اسرائیلی حکومت پر عدم اعتماد
مقبوضہ فلسطین سے تعلق رکھنے والے محمد ابو مطر نامی ایک شہری جو بن گوریون ہوائی اڈے پر بیرون ملک سفر کی تیاری کے ساتھ پہنچے تھے، اپنے تحفظات کا اظہار اس انداز میں کیا کہ ہوائی اڈے پر ویرانی کا جو عالم انہوں نے اس وقت دیکھا ہے اس سے قبل کبھی نہین دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بن گوریون ہوائی اڈے پر غیرملکی پروازوں کی آمد ورفت کا ایک تانتا بندھا رہتا تھا لیکن اب وہاں پر ہر طرف ہو کا عالم ہے۔
ابو مطر نے کہا کہ ایک طرف فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملے ہیں اور دوسری طرف تل ابیب حکومت کی "سب اچھا ہے” کی رپورٹ ہے۔ ہمیں اسرائیلی حکومت کی یقین دہانیوں پر ذرا بھی اعتبار نہیں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت غیرملکی فضائی کمپنیوں کو بار بار یقین دہانی کراتی رہی ہے کہ بن گوریون ہوائی اڈے کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، لیکن جب غزہ کی پٹی سے داغا گیا ایک راکٹ ہوائی اڈے کی بیرونی دیوار سے ٹکرایا تو غیرملکی کمپنیوں کو یقین ہو گیا کہ اسرائیلی حکومت انہیں نام نہاد سیکیورٹی کی یقین دہانیاں کرا رہی ہے۔
ایک دوسرے شہری محمد شداد نے کہا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کشی کے بعد سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے بن گوریون ہوائی اڈے پر راکٹ حملوں تک ہوائی اڈے پر جہازوں کی آمد ورفت تبدیل ہوتی رہی۔ جہاز زاویے بدل بدل کر ہوائی اڈے پر اترتے لیکن جب فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹوں نے ہوائی اڈے پر مار کرنا شروع کی تو غیرملکی فضائی کمپنیوں نے اسرائیل کے لیے اپنی سروسز روک لی تھیں۔