دنیا میں آزادیٔ اظہار کے نام نہاد علمبرداروں کا حقیقی چہرہ ایک مرتبہ پھر سامنے آگیا ہے اور آزادی اظہار کے نام پر دوسرے مذاہب کی مقدس شخصیات کی توہین کرنے والے یہود کو اپنے انتہا پسند وزیر اعظم کا کسی اخبار میں خاکہ یا کارٹون بھی گوارا نہیں ہے۔
اسرائیل کی پارلیمان کے اسپیکر برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز میں صہیونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے کارٹون کی اشاعت پر برس پڑے ہیں حالانکہ اس کارٹون میں انتہا پسند یہود کے منتخب لیڈر کا حقیقی چہرہ ہی دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس کارٹون میں نیتن یاہو کو فلسطینیوں کے خون اور لاشوں کے ساتھ ایک دیوار بناتے ہوئے دکھایا گیا تھا لیکن کنیسٹ کے اسپیکر ریوین ریولین نے اپنے برطانوی ہم منصب جان برکو کو ایک خط لکھ بھیجا ہے اور اس میں کہا ہے کہ ”اسرائیل کے عوام کے لیے یہ ایک ایسا کارٹون ہے جو انسانی تاریخ کے تاریک دور کی سیاہ صحافت کی یاد دہانی کراتا ہے”۔
مسٹر ریولین نے لکھا ہے کہ ”ایک جمہوریت پسند ہونے کے ناتے میں سیاسی تنقید کا حامی ہوں لیکن گذشتہ روز لندن میں اس کارٹون کی اشاعت سے آزادیٔ تقریر کی تمام سرحدیں عبور کر لی گئی ہیں اور تعصب جائز تنقید پر حاوی ہو گیا ہے”۔
انھوں نے برطانوی دارالعوام کے اسپیکر کے نام لکھا ہے کہ ”اگر اسرائیل میں کسی برطانوی کا اس طرح کا کارٹون چھپتا اور اس میں برطانوی لوگوں کے جذبات مجروح کیے جاتے اور اظہار رائے کی آزادی کی سرحد عبور کی جاتی تو آپ مجھے اس کی شکایت کرنے میں کسی تردد کا مظاہرہ نہ کرتے”۔
اس اسرائیلی عہدے دار نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ برطانیہ میں آج کے جدید دور میں بھی اس طرح کے کارٹون شائع کیے جا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اس کارٹون سے غیر صحت مندانہ رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے۔
لیکن بائیں بازو کے رجحانات کے حامل ایک اخبار ہارٹز کے لکھاری آنشیل فیفر نے اس کارٹون پر تنقید کی مذمت کر دی ہے اور لکھا ہے کہ یہ کارٹون کسی بھی طرح یہود مخالفت کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتا.
زبردستی کی معافی
برطانوی اخبار میں اس کارٹون کی اشاعت سے صرف ایک روز قبل ہی ایک رکن پارلیمان کو اپنے بلاگ میں اسرائیل پر تنقید کی پاداش میں معافی مانگنا پڑ گئی تھی۔برطانیہ کے لبرل ڈیمو کریٹ رکن پارلیمان ڈیوڈ وارڈ نے اپنے بلاگ میں یہودیوں کے فلسطینیوں پر مظالم کو نازی جرمن کے یہود پر ڈھائے گئے ہولوکاسٹ مظالم کے مشابہ قرار دیا تھا۔
فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کی مذمت میں یہ الفاظ سامنے آنے کے ساتھ ہی ڈیوڈ وارڈ پر سوشل میڈیا کی سائٹس پر کڑی تنقید شروع کردی گئی۔اس پر انھیں ہفتے کے روز ایک معافی نامہ جاری کرنا پڑا۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ ”وہ یہود پر مجموعی طور پر کوئی حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ کسی خاص نسل یا عقیدے کے لوگوں کو وہ نشانہ بنانا چاہتے تھے”۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین