صہیونی ریاست کے مظالم کا پردہ چاک کرنے اور امریکی حکومت کو حقائق سے آگاہ کرنے والے امریکیوں میں ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ اسکالر اسٹیفن لیفسکی اور شکاگو یونیوسٹی کے گلین ویلی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اخبار”واشنگٹن پوسٹ ” میں ایک مشترکہ مضمون شائع کیا ہے۔ اپنے اس مضمون میں انہوں نے کھل امریکی حکومت، اشرافیہ، فوج اور تمام ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آنکھیں کھولیں، اسرائیل کو اس کے جرائم کی نظر سے دیکھیں۔ صہیونی ریاست کے منظم جرائم اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کا نہ صرف نوٹس لیں بلکہ اسرائیل کا ہرسطح پر بائیکاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کو دنیا میں تنہا کریں۔
اگرچہ دونوں امریکی اسکالروں کا مطالبہ مبنی برحق ہے کہ اس مطالبے کے بعد انہوں نے امریکا سمیت پوری دنیا کی صہیونی لابی کی مخالفت بھی مول لی ہے۔
فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں کہ امریکا عشروں سے اسرائیلی ریاست کی بقاء اور سلامتی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہم ہرمحاذ اور ہراچھے برے موقع پر اسرائیل کی مدد کرتے ہیں مگر آج تک ہماری حکومتوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اسرائیل کس راہ پر چل رہا ہے۔ اگرہماری حکومتیں اسرائیل کو حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ اسرائیل خود ہی اپنی تباہی اور بربادی کا سامان کررہا ہے۔ جس ڈگر پرصہیونی ریاست چل رہی ہے وہ اس کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
دونوں امریکی اسکالروں نے استفسار کیا ہے کہ کیا ہم ایک ایسے ملک کا بائیکاٹ نہیں کرسکتے جو انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ ہمارا دوہرا معیار نہیں ہے۔ خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ بلا شبہ یہ ہمارا دوہرا معیار ہے۔ ہم اسرائیل کی بقاء اور سلامتی کے حوالے سے غیرمعمولی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم کسی دوسرے ملک کے انجام کے بارے میں اتنے مشوش نہیں ہوتے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ دنیا میں بین الاقوامی قوانین کی پامالیاں کرنے والے کئی ملک تنہائی کا شکار ہیں۔ ان میں شام اور شمالی کوریا سر فہرست ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ جب اسرائیل کے بائیکاٹ کی کوئی مہم چلائی جاتی تو وہ شام اور شمالی کوریا کے خلاف چلائی گئی کسی مہم سے زیادہ موثر اور کامیاب رہتی ہے۔
اس کی وجہ ہے کہ ہم نے اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے اپنی نظریں چرانے کی پالیسی اپنارکھی ہے۔ پوری دنیا ہماری طرح بے پرواہ نہیں ہے۔ اس باب میں صرف ہم ہی لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں بلکہ اسرائیلی حکومتیں بھی اسی احمقانہ روش پرعمل پیرا ہیں۔ اسرائیلی اس خیال میں مگن ہیں کہ انہیں امریکا سرمایہ مہیا کرتا ہے۔ امریکیوں کے بل بوتے پر اسرائیل کی تجارت اور معیشت پھل پھول رہی ہے۔ ہم اسرائیل کی بغیر سوچے سمجھے سیاسی اور سفارتی معاونت کرتے ہیں۔
امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آج ہم ایک فیصلہ کن موڑ پرکھڑ ے ہیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فلسطین میں یہودی آباد کاری کے توسیع کا عمل جاری رہنا چاہیے یا بند ہونا چاہیے۔ ان اس اہم معاملے کو کسی صورت میں صرف نظرنہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل تیزی کے ساتھ متنازعہ عرب علاقوں میں یہودی توسیع پسندی کا دائرہ پھیلا کر صورت حال کو ناقابل تغیر ہونے کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہم اس باب میں اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت اور مدد کررہے ہیں۔ ہمارے دماغوں میں یہ خبط سوار ہے کہ کہ اسرائیل کی سلامتی کی امید اس کے دفاع اور دو روس مفادات کے حصول کا ذریعہ بنے گی مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہماری اور اسرائیل کی اپنی پالیسی اسرائیل کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔
امریکی امداد روکنے کا مطالبہ
دونوں امریکی محققین گلین ویلی اور اسٹیفن لیوسکی نے اپنے مشترکہ مضمون میں امریکی حکومت سے اسرائیل کی ہرطرح کی امداد بند کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انسانی حقوق کی پامالیاں ہی کسی ملک کے اقتصادی ، معاشی اور سفارتی بائیکاٹ کا سبب ہیں تو اسرائیل کو اس میں استثنیٰ کیوں دیا جا رہا ہے۔ اس وقت معقول بات یہی ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے امریکی حکومت اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے۔ صہیونی ریاست کو دی گئی غیرمعمولی مراعات اور امداد کا سلسلہ منقطع کیا جائے۔ صہیونی ریاست کا بھی اقتصادی اور سفارتی بائیکاٹ کیا جائے اور امریکا کچھ عرصے کے لیے اسرائیل سے دور ہوجائے۔
دونوں امریکی تجزیہ نگاروخ کا کہنا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ اور متنازعہ عرب علاقوں میں قائم اسرائیلی کارخانوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔ اگر اسرائیل کو اپنی غلطیوں کا احساس دلانا ضروری ہے تو صہیونی ریاست کے وسیع پیمانے پربائیکاٹ ہونا چاہیے۔ ہم اپنے تاجروں ،صنعت کاروں، جامعات، ارکان کانگریس اور تمام اداروں کو اسرائیل کے بائیکاٹ کا کہیں تاکہ صہیونی ریاست پر دبائو ڈالا جاسکے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج تک فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جتنے بھی امن مذاکرات ہوئےان میں کہیں بھی اسرائیل کو خود مختارفلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینیوں کو اپنی الگ ریاست میں مرضی کی جمہوری حکومت لانے کے لیے سنجیدہ نہیں پایا۔ ایسے میں اب امریکا کی طرف سے اسرائیل کو سخت پیغام جانا چاہیے کہ تل ابیب کی ہٹ دھرمی کے ہوتے ہوئے ہم اس کی امداد جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔ نیز یہ کہ اسرائیل کی غیر لچک دار پالیسی خود صہیونی ریاست کی تباہی کا موجب بن سکتی ہے۔
اخبار "واشنگٹن پوسٹ” لکھتا ہے کہ امریکی حکومت اسرائیلی کی مدد کو پہلوئوں سے کرتی ہے۔ اول یہ کہ اسرائیلی ریاست کا وجود اور اس کی بقاء مختلف سانحات میں امریکی قوم کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ دوم یہ کہ یہودیوں کو بھی دنیا میں الگ سے ایک ریاست کا حق حاصل ہے۔ عالمی قوانین کی رو سے انہیں بھی اپنی مملکت میں رہنے کا حق ہے۔ خاص طورپر ہولوکاسٹ سے جو سبق ملا ہے وہ یہی ہےکہ یہودیوں کے پاس ایک خود مختار ملک ہونا ضروری ہے تاکہ وہ پوری دنیا میں پھیلے اپنے مذہب کے پیروکاروں کے حقوق کی حفاظت کرسکے۔
مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اسرائیل کی حمایت کرتے کرتے خود بھی غیر جمہوری طرز عمل پر چل پڑتے ہیں۔ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی یہودی کالونیون کےقیام کو نہیں روک سکے۔ اسرائیل کے لیے ہماری حمایت کا عالم یہ ہے کہ ہم فلسطینیوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دلانے میں بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔
امریکی مفکرین کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں سنہ 1980 ء میں یہودی آباد کاروں کی تعداد 12 ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ آج اس میں 30 گنا اضافہ ہوچکا ہے اور غرب اردن میں یہودی آباد کاروں کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیلی صدر کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ مغربی کنارا متنازع علاقہ نہیں بلکہ اسرائیل کا حصہ ہے۔
عالمی سطح پر تنہا ہوتا اسرائیل
امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صہیونی ریاست کے فلسطینیوں پر مستقل مظالم جلد ہی اسرائیل کی عالمی سطح پر تنہائی کا سبب بنے گے۔ مغربی ممالک اسرائیل کے بارے میں بتدریج اپنی پالیسیاں تبدیل کررہے ہیں۔ اس وقت نہ صرف یورپی ملکوں میں اسرائیل کے حوالے سے سوچ تبدیل ہو رہی ہے بلکہ صہیونی ریاست کے حوالے سے امریکی رائے عامہ بھی تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ امریکیوں کی نئی نسل اسرائیل کی امداد کو بھی شک و شبے کی بنیاد سے دیکھ رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی آبادی میں غیرمعمولی اضافے سے صہیونی معاشرہ پارہ پارہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسرائیل میں آرتھوڈوکس انتہا پسند یہودیوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہودی انتہا پسندوں کے فلسطینیوں پر حملوں کے نتیجے میں بھی اسرائیلی ریاست کو اندرونی اور بیرونی دبائو کا سامنا ہے۔ اسرائیل کے پاس ایک ہی چارہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقی جمہوری طرز عمل اپنائے مگر اس کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران مغربی کنارے اور بیت المقدس میں تشدد کی جو لہر اٹھی ہے اس نے صہیونی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ تشدد کا سلسلہ اب معمول کی بات ہے۔
امریکی تجزیہ نگار اپنے مضمون کا نچوڑ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ صہیونی ریاست، اس کی حکومت، ادارے اور اس میں آباد انتہا پسند مل کر خود ہی یہودی ریاست کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔