(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) امریکہ کی ریاست لوئیزیانا کے ایک جج جیمی کومانس نے ایک فیصلے میں فلسطین کے حامی سرگرم کارکن محمود خلیل کو امریکہ سے بے دخل کر کے الجزائر یا متبادل طور پر شام بھیجنے کا حکم جاری کیا ہے۔
جانبدار جج نے اپنے فیصلے میں یہ دعویٰ کیا کہ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں فلسطینی آزادی کی حمایت میں احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والے محمود خلیل نے مستقل رہائش کی درخواست دیتے وقت مبینہ طور پر اہم معلومات کو پوشیدہ رکھا تھا۔
محمود خلیل نے اس فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ انہیں آزادی اظہارِ رائے کی سزا کے طور پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ بیان امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کے ذریعے جاری کیا گیا۔
خلیل کے وکلاء نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ایک علیحدہ وفاقی ضلعی عدالت نے حکومت کو حکم دے رکھا ہے کہ جب تک مقدمہ زیرِ سماعت ہے محمود خلیل کو نہ تو ملک بدر کیا جائے اور نہ ہی حراست میں رکھا جائے۔ یہ حکم اب بھی مؤثر ہے۔
محمود خلیل امریکہ میں قانونی طور پر مستقل رہائش پذیر ہیں۔ وہ ایک امریکی شہری خاتون کے شوہر اور امریکہ میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے والد ہیں۔ اس کے باوجود امریکی امیگریشن حکام نے انہیں مارچ 2025 سے تین ماہ تک حراست میں رکھا اور اب انہیں جبری ملک بدری کے خطرے کا سامنا ہے۔
یہ تمام کارروائی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ٹرمپ نے گزشتہ مہینوں کے دوران بڑی امریکی یونیورسٹیوں کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس مہم کے دوران انہوں نے کولمبیا اور ہارورڈ سمیت کئی جامعات کو غیر ملکی طلباء کو داخلہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان اداروں کے وفاقی فنڈز میں کٹوتی کی گئی اور انہیں تسلیم شدہ حیثیت ختم کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔