مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ایسا ہی ایک مطالبہ حال ہی میں امریکا کی "مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر” آرگنائزیشن نامی ایک تنظیم کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ امریکا میں موجود "MESA” کی جانب سے جاری ایک بیان میں تنظیم رواں سال کی سالانہ عالمی کانفرنس میں اسرائیل کے کسی ماہر تعلیم یا کسی یونیورسٹی کے کو مقالہ پیش کرنے کی اجازت نہ دے۔ خیال رہے کہ اس تنظیم سے امریکا میں کم سے کم 3000 ماہرین تعلیم اور اسکالرز وابستہ ہیں اور انہوں نے تنظیم کی جانب سے سامنے آنے والی اس تجویز پر عمل درآمد کے لیے بھی غور شروع کیا ہے۔
ادھر امریکی تنظیم کی سالانہ کانفرنس میں اسرائیل کے بائیکاٹ کی تجویز کے بعد صہیونی تعلیمی حلقوں اور جامعات کی انتظامیہ کی جانب سے سخت بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل میں تمام عبرانی یونیورسٹیوں کے چیئرمین پروفیسر مناحیم بن ساسون کا کہنا ہے کہ امریکی تنظیم کی جانب سے اسرائیل کے تمام اداروں کے بائیکاٹ کی تجویز اسرائیل کو تحقیقاتی میدان میں تنہا کرنے کی کوشش ہے۔ اس تجویز پر عمل درآمد سے اسرائیل کے تعلیمی اور تحقیقی شعبے پر گہری منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مسٹر ساسون نے امید ظاہر کی کہ امریکی تنظیم میں موجود ایک اقلیت کے مطالبے پر وہ اسرائیل کے تعلیمی و تحقیقی مواد کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کرے گی کیونکہ اسرائیل ماہرین کی تحقیقات بھی امریکا میں اپنی اہمیت رکھتی ہیں۔
درایں اثناء اسرائیل کے محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری ایک بیان میں "میسا” کی سرگرمیوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے اسرائیل دشمن اور خالص عربی تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین