واشنگٹن(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اسرائیلی اور صیہونی لابی پر کڑی نکتہ چینی کرنے والی امریکی ایوان نمائندگان کی مسلمان خاتون رکن پر دباؤ کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اب ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق صیہونیوں کے خلاف الہان عمر کے حقیقت پسندانہ بیانات نے امریکی صدر کو چراغ پا کر دیا ہے اور ٹرمپ نے منگل کے روز اپنے تحکمانہ اور نسل پرستانہ بیان میں کہا ہے کہ اس مسلم خاتون کو ایوان نمائندگان کی رکنیت سے استعفی اور ایوان نمائندگان کی خارجہ تعلقات کمیٹی سے نکل جانا چاہیے۔
امریکہ کے نائب صدر مائک پینس نے بھی ایوان نمائندگان کی رکن مسلم خاتون کو ڈرانے دھمکانے کی بھرپور کوشش کی۔ مائک پینس کا کہنا ہے کہ الہان نے اسرائیل اور صیہونی لابی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے کہ اس کے نتائج بھی انہیں بھگتنا ہوں گے۔
الہان عمر امریکی ایوان نمائندن کی پہلی باپردہ مسلم خاتون اور ڈیموکریٹ پارٹی کی رکن ہیں اور انہوں نے حال میں اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ امریکہ میں اسرائیلی لابی ایپک امریکی سیاستدانوں کو اسرائیل کی حمایت کے لیے بھاری رشوتیں دیتی ہے۔
ماہرین نے کے مطابق امریکہ میں ایوان نمائندگان رکن مسلم خاتون کے بیان پر ایسے وقت میں انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں جب امریکہ دنیا بھر میں آزادی اظہار کا راگ الاپتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اندرون امریکہ ہر شخص کو اپنے عقیدے اور نظریئے کو کھل کر بیان کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
الہان عمر کے ٹوئیٹ پر صیہونی لابی نے ان کے خلاف میڈیا وار شروع کر دی ہے اور اتنا شدید دباؤ ڈالا کہ انہیں اپنے ٹوئیٹ پر ،جسے صیہونی لابی نے یہودیت مخالف قرار دیا ہے، معافی مانگا پڑی۔ الہان عمر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ امریکہ کے اتحادیوں اور تاریخ کا سبق پڑھانے والے اپنے یہودی ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان کی مسلم رکن نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ان کا مقصد یہودیوں سمیت کسی بھی شخص کی توہین کرنا نہیں تھا۔
امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پلوسی بھی ان امریکی عہدیداروں میں شامل ہیں جو پچھلے چند روز کے دوران الہان عمر پر عذر خواہی کے لیے شدید دباؤ ڈالتی رہی ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان کے ری پبلکن اراکین نے بھی اسرائیل کے خلاف الہان عمر کے بیان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انہیں ایوان کی خارجہ تعلقات کمیٹی کا رکن بنانے پر شدید برہمی ظاہر کی ہے۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ الہان عمر ایوان نمائندگان کی رکن منتخب ہونے سے پہلے بھی اسرائیل کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کے حوالے سے مشہور تھیں اور وہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک بی ڈی ایس کی بھی حمایت کرتی رہی ہیں۔