رپورٹ کے مطابق سلوان مقامی دفاعی ارضی کمیٹی کے رکن فخری ابو دیاب نے بتایا کہ مکانات، مساجد اور املاک کی مسماری اسرائیلی ریاست کا بیت المقدس کے باشندوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا ایک ذریعہ ہے۔ فلسطینیوں کے مکانات اور مساجد کی مسماری اس لیے کی جاتی ہے تاکہ فلسطینی آبادی کو متاثر کیا جاسکے اور وہ یہودیوں کے مقابلے میں اقلیت بن کر رہے۔ مسجد اقصیٰ کے آس پاس کے علاقے خاص طورپرصہیونی فوج اور اسرائیلی ریاستی اداروں کی انتقامی کارروائیوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے جہاں ایک طرف ہہودی آباد کاری کے ذریعے فلسطینیوں کا جینا دو بھر کردیا ہے وہیں فلسطینی آبادی کو ان کی زمینوں، جائیدادوں، مکانات اور دیگراملاک سے محروم کرنے کے لیے بھی ظالمانہ نوعیت کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ابو دیاب کا کہنا تھا کہ عین اللوزہ کالونی میں جامع مسجد کی مسماری کا نوٹس بیت المقدس میں کسی مسجد کی شہادت کا یہ پہلا نوٹس نہیں بلکہ اب تک کئی مساجد اور مقدس مقامات یہودی توسیع پسندی کی نذرہوچکے ہیں۔
مسجد کے ایک منتظم الشیخ ھانی ابوتایہ نے کہا کہ مسجد کوشہید کرنے کی سازش کے پیچھے اسرائیلی بلدیہ کا ہاتھ ہے۔ گذشتہ روز جب اسرائیلی پولیس نے مقامی فلسطینی شہریوں اور مسجد کمیٹی کو مسجد کو شہید کرنے کا نوٹس دیا تو اس وقت اسرائیلی بلدیہ کے کئی اہلکاربھی موقع پرموجود تھے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ مسجد ایک ہفتے کے اندر اندر شہید کردی جائے گی۔
ابو تایہ کا کہنا تھا کہ عین اللوزہ کالونی کی آبادی 5000 نفوس پرمشتمل ہے اور یہ اس علاقے کی واحد جامع مسجد ہے۔ اسرائیلی حکام نے مسجد کو شہید کرنے کا نوٹس جاری کرنے سے قبل ہماری زمینوں پر یہودیوں کے لیے کئی معبد تعمیر کرنے شروع کیے ہیں۔ ان تمام سازشوں کا مقصد عین اللوزہ کالونی کے فلسطینی باشندوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا ہے۔
فلسطین کی مساجد صہیونی نشانے پر
ھانی ابو تایا نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں مساجد کو ایک منظم اور طے شدہ حکمت عملی کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے۔ صہیونی حکام کی جانب سے عین اللوزہ میں جامع مسجد القعقاع کو مسمار کرنے کا نوٹس جاری کیا۔ فلسطین میں کسی مسجد کو شہید کرنے کا یہ پہلا نوٹس نہیں ہے۔ اسرائیل فلسطینی شہریوں کو "دہشت گرد” اور مساجد کو دہشت گردی کی آماج گاہیں قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی شہریوں کو مساجد کی تعمیر کی اجازت نہیں دی جاتی۔ پہلے سے موجود مساجد کو شہید کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ ویسے تو فلسطینی شہریوں کی کسی قسم کی املاک بھی صہیونی حکام کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے مکانات، دکانیں، تجارتی مراکز حتیٰ کہ پولٹری فارم اور مویشیوں کے باڑے تک مسمار کیے جا رہے ہیں۔
سلوان میں دفاع اراضی کمیٹی کے رکن فخری ابودیاب نے بتایا کہ اسرائیل ایک منظم سازش کے تحت بیت المقدس کی مساجد کو نشانہ بنا رہا ہے۔ بیت المقدس کی مساجد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تاریخی قبرستان بھی اسرائیلی غاصبانہ سازشوں کی زد میں ہیں۔
مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے یہودیوں کی بدترین ریشہ دوانیوں کا سامنا کررہی ہے۔ اس کے علاوہ مسجد عین سلوان، مسجد سلطان محمد فاتح اور اب مسجد قعقاع صہیونی توسیع پسندی کی سازشوں کی زد میں ہے۔
ابو دیاب نے بتایا کہ سلوان قصبے کا کل رقبہ 5640 دونم ہے جس میں 520000 فلسطینی مقیم ہیں۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے سلوان کی 97 فی صد اراضی کو گرین زون قرار دیاگیا ہے جس میں فلسطینی شہریوں کے لیے مکانات اور مساجد کی تعمیر ومرمت پر پابندی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خود اسرائیل نے سلوان میں غیرمعمولی تعمیرات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ صہیونی حکام کی طرف سے سلوان میں زیرزمین 16 سرنگیں بنائی گئی ہیں۔ان میں سے سات سرنگیں اموی محلات اور دو مسجد اقصیٰ کی دیوار براق کی طرف جاتی ہیں۔ سلوان کو یہودیانے کے لیے 56 یہودی کالونیاں قائم کی گئی ہیں۔ قصبے میں کئی صہیونی کلچرل سینٹر اور اسرائیلی تجارتی مراکز قائم ہیں جن کی وجہ سے مقامی فلسطینی آبادی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔