اسرائیل کے عبرانی اخبارات نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی ریاست کی عدالتیں بھی بدترین نسل پرستانہ پالیسی کے زیرسایہ غیر منصفانہ فیصلے کرتے ہوئے یہودیوں اور فلسطینیوں کو سنگ باری کی سزائوں میں کھلم کھلا تضاد برت رہی ہیں۔
عبرانی اخبار”ہارٹز” نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ حال ہی میں بیت المقدس کی ایک مجسٹریٹ عدالت کی فاضل خاتون جج ‘ درورہ فائینچائن’ نے پولیس کی گاڑیوں پر سنگ باری کے الزام میں گرفتار کیے گئے تین یہودی شرپسندوں کو رہا کرتے ہوئے انہیں چند دن کے لیے گھروں میں نظر بند رکھنے کی سزا دی جب کہ اس کے مقابلے میں پتھراؤ کے الزام میں گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کو 10 اور 20 سال تک باقاعدہ قید کی سزائیں دی جاتی ہیں۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی پولیس کی جانب سے مجسٹریٹ عدالت کو درخواست دی گئی تھی کہ وہ پتھراؤ کے الزام میں گرفتار کیے گئے یہودیوں کی مدت حراست میں مزید توسیع کرے تاکہ ان کے خلاف مرکزی عدالت میں فرد جرم کے لیے درخواست دی جاسکے تاہم خاتون جج نے پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تینوں یہودی شرپسندوں کو رہا کردیا۔
دوسری جانب سنگ باری کے شبے میں گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اگر ان یہودیوں کی جگہ فلسطینی شہری ہوتے تو انہیں کسی صورت میں رہا نہ کیا جاتا بلکہ انہیں قید کی کڑی سزائیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ بدھ کو "حریدیم” فرقے کے سیکڑوں یہودی آباد کاروں نے بیت المقدس کی شاہرا نمبر ایک پر بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے کیے تھے اور توڑ پھوڑ کی تھی۔ یہودی آباد کاروں نے اسرائیلی پولیس کی گاڑیوں کو بھی سنگ باری کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں متعدد گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔ پولیس نے توڑ پھوڑ اور تشدد کےالزام میں تین یہودی آباد کاروں کو گرفتارکیا تھا تاہم صہیونی مجسٹریٹ عدالت نے سنگ باری کے الزام میں گرفتار یہودی شرپسندوں کو چھوڑ نے کا حکم دے دیا تھا۔