رپورٹ کے مطابق صہیونی فوجیوں نے "بیت ھداسا” کے قریب راہ چلتے ہوئے 19 سالہ فلسطینی فاروق عبدالقادر عمر سدر کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی نوجوان نے شہادت سے قبل اسرائیلی فوجیوں پر چاقو سے حملے کی کوشش کی تھی جس پراسے گولی ماری گئی تاہم عینی شاہدین نے صہیونی فوج کے دعوے کو مسترد کردیا ہے۔
قبل ازیں جمعرات کو علی الصباح مغربی کنارے کے الخلیل شہر میں ایک 22 سالہ فلسطینی مہدی رمضان المحتسب کو صہیونی فوجیوں نے راہ چلتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ المحتسب کو 50 میٹر کی مسافت سے گولیاں ماری گئیں جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوکر زمین پر گر پڑا۔ فلسطینی شہریوں نے زخمی فلسطینی کو اٹھانے کے لیے جائے وقوعہ پرپہنچنے کی کوشش مگر قابض فوجیوں نے فلسطینیوں کو قریب نہ جانے دیا۔ زخمی فلسطینی کے قریب جانے کی کوشش کرنے والوں کو گولی ماری کی دھمکی دی گئی۔ آدھے گھنٹے تک المحتسب تڑپتا رہا جس کے بعد جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
نامہ نگار نے بتایا کہ فلسطینی نوجوان کو وسطی الخلیل جامع مسجد ابراہیمی کے قریب چوکی نمبر 160 کے قریب گولیاں ماری گئیں۔ زخموں سے تڑپتے فلسطینی نوجوان پر اسرائیلی فوجیوں نے نائلون کا ایک ٹکڑا پھینکا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ شہید ہوچکا ہے۔ زخمی فلسطینی جیسے جیسے حرکت کرتا اسرائیلی فوجی اسے مزید گولیاں مارتےجاتے۔ کئی گولیاں شہید کے سر اور گردن سے پار ہوگئیں۔
ایک عینی شاہد نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کی اس وحشیانہ کارروائی کے بعد علاقے میں سخت غم وغصے کی فضاء پائی جا رہی ہے۔ اسکولوں کے طلباء نے بھی صہیونی فوجیوں پر پتھراؤ کیا اور ان کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ قابض فوجیوں نے بچوں کو منتشر کرنے کے لیے ان آنسوگیس کی شیلنگ کی۔
ویب سائیٹ پر پوسٹ کی گئی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی شہری نے ایک یہودی فوجی کے سرمیں چاقو سے حملہ کردیا تھا جس کے بعد اسے گولیاں ماری گئیں۔ تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شہید فلسطینی کے پاس کوئی ایسا آلہ قتل نہیں تھا اور نہ ہی اس نے یہودی فوجیوں پر کسی قسم کا حملہ کیا ہے۔