اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نہتے فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں کے واقعات میں سنہ 2010 ء کے بعد ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید فلسطینی بچوں کی تعداد 340 ہوگئی ہے۔ اس تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم اسیران اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ریاض الاشقرنے بتایا کہ اسرائیلی فوج ایک منظم منصوبے کے تحت فلسطینی بچوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ صہیونی فوج فلسطینی بچوں کو حالیہ تحریک انتفاضہ کا ایندھن سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ان کی اندھا دھند گرفتاریاں کی جا رہی ہے اور جیلوں میں ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اکتوبر کے مہینے میں اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں تلاشی کی کارروائیوں میں 750 فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا۔ ان میں سے بیشتر کی عمریں 10 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔
ریاض الاشقر کا کہنا تھا کہ تحریک انتفاضہ شروع ہونے کے بعد فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں میں 65 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت بھی اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بچوں کی تعداد 340 ہے۔ سنہ 2010 ء کے بعد اتنی بڑی تعداد میں پابند سلاسل ہونا ایک ریکارڈ ہے۔ سنہ 2010 ء میں 280 سے زائد فلسطینی بچے اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔ نومبر 2011 ء میں ان کی تعداد 285 تھی۔ سنہ 2012 ء میں 193 ، 2013 ء میں 190 ، 2014 ء میں 300 اور حالیہ تحریک انتفاضہ سے قبل 210 بچے اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل تھے۔
ریاض الاشقر نے بتایا کہ صہیونی فوج نے قیدی بنائے گئے فلسطینی بچوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر "گفعون” نامی ایک نئی جیل بھی قائم کردی ہے جس میں ابتدائی طورپر 40 فلسطینی بچوں کو ڈالا گیا ہے۔ جیل ایک ویران خانہ ہے جو حشرالات الارض کی آماج گاہ ہے۔
جیلوں میں پابند سلاسل بچوں میں سے بعض کی عمریں 10 سال سے بھی کم ہیں۔ ان میں سات سالہ معتصم ایاد الرجبی، اور نو سالہ احمد ایاد الرجی بھی شامل ہیں۔ جب کہ حال ہی میں بیت المقدس سے ایک 10 سالہ بچے عزالدین زعلول کو حراست میں لیا گیا۔