(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی فوج کے سربراہ نے باضابطہ طورپراعتراف کیا ہے کہ اسرائیل کے سیکیورٹی ادارے فلسطینی شہریوں پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے مرتکب ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی اخلاقی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صہیونی فوج کے سربراہ جنرل آئزنکوٹ نے مقبوضہ شہر ’’بات یام‘‘ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی جانب سے حملوں کے خطرے کے پیش نظر ہماری فوج نے بعض مقامات پر طاقت کا بلا جواز استعمال کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جب ممکن فلسطینی حملہ آوروں کی جانب سے اسرائیلی فوج کو کوئی خطرہ نہیں تھا مگر اس کے باوجود فوجیوں نے گولیاں مار کر فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا۔
جنرل آئزنکوٹ نے مثال کے طور ایک واقعہ کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ اسرائیلی فوجیوں سے کافی فاصلے پر ایک تیرہ سالہ لڑکی ہاتھ میں چاقو یا چھری اٹھائے کھڑی ہے۔ اس کے اور فوجیوں کے درمیان رکاوٹیں بھی حائل ہیں۔ اس کے باوجود فوجیوں نے اس پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوئی ہے۔ یہ ایسا واقعہ ہےجس پر فوج کی اخلاقی ساکھ پرسوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔
اسرائیلی آرمی چیف کی جانب سے فوج کے ہاتھوں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کے اعترافی بیان پر اسرائیل کے انتہا پسند مذہبی حلقوں کا شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
اسرائیلی طلباء سے خطاب کرتے ہوئے صہیونی آرمی چیف نے تسلیم کیا کہ فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے اندھا دھند استعمال کے نتیجے میں فوج کی اخلاقی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے جسے بحال کرنے کے لیے فوج کے رویےمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
جنرل آئزنکوٹ کے اس بیان نے مذہبی شدت پسند یہودیوں کو آگ بگولا کردیا ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کوکڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے ضرورت سےزیادہ استعمال کا الزام آرمی چیف کی طرف سے نہیں آنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کےخلاف فوج کی کارروائیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے ، غزہ کی پٹی اور بیت المقدس میں گذشتہ برس اکتوبر کے بعد صہیونی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں میں 180 سے زیادہ فلسطینی شہید اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوچکے ہیں۔
