تیونس کی پارلیمنٹ کے ارکان کی بڑی تعداد نے اسرائیلی سیاحوں کے ملک میں داخلے اور دو اہم حکومتی وزیروں کے اس میں ملوث ہونے کی شدید مخالفت کی ہے جس کے بعد حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان سخت اختلافات سامنے آئے ہیں۔
ایسے لگ رہا ہے کہ یہودی سیاحوں کے معاملے پر حکومت کے حامی اور مخالف دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق تیونس کی قومی مجلس قانون ساز کے 80 ارکان نے متفقہ طور پر ایک یاداشت اسپیکر کو بھیجی ہے جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خاتون وزیر سیاحت آمال کربول اور وزیر داخلہ رضا صفر سے پوچھیں کہ انہوں نے کس بنیاد پر گذشتہ ہفتے 61 اسرائیلی سیاحوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔
دوسری جانب وزیر اعظم علی جمعہ نے دفاعی موقف اختیار کرتے ہوئے اسپیکر کو بھجوائی گئی یادداشت کو ‘تعمیری’ قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے کا سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ شفاف طریقے سے حل نکالا جائے گا۔
خیال رہے کہ تیونسی میڈیا میں آنے والی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ سیکیورٹی حکام نے شمالی تیونس کی وادی کی ایک بندرگاہ سے 61 یہودیوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ بندرگاہ سے آنے والے تمام افراد کے پاس اسرائیلی پاسپورٹ تھے۔
نیوز ویب پورٹل "الصدیٰ” نے وزارت داخلہ کی جانب سے یہودی سیاحوں کے ملک میں داخلے کے حوالے جاری کردہ خصوصی اجازت نامہ بھی شائع کردیا تھا، تاہم وزارت داخلہ نے میڈیا کی اس خبر کی تردید نہیں کی۔ پریس میں خبریں شائع ہونے کے بعد وزیراعظم علی جمعہ کا ایک مختصر بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے صہیونی سیاحوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی”۔
علی جعمہ کا کہنا تھا کہ اب سیاحت کا موسم ہے اور مغربی سیاح بھی بڑی تعداد میں تیونس کا رخ کررہے ہیں۔ ان کا اشارہ جزیرہ نما "جربہ” کی جانب تھا جو جنوبی تیونس میں یہودی عبادت گاہوں اور سیاحت کے حوالے سے اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ایسٹر کے تہوار اور یہودیوں کی عیدالفصح کے موقع پر غیر ملکی عیسائی اور یہودی بڑی تعداد میں اس علاقے میں چھٹیاں گذارنے آتے ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین