فرانس کے شہر کینز میں گذشتہ ہفتے منعقدہ جی20 سربراہ اجلاس کے موقع پر امریکی صدر براک اوباما اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کا مائیکروفون غلطی سے کھلا رہ گیا تھا اور اس دوران ان کی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کےبارے میں سخت کلمات پر مبنی گفتگو منظرعام پر آئی ہے جس میں فرانسیسی صدر نے نیتن یاہو کو ایک جھوٹا شخص قرار دیا تھا۔
فرانسیسی ویب سائٹ آرٹ سور کی ایک رپورٹ کے مطابق”فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے صدر اوباما سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم ایک جھوٹےشخص ہیں”۔
اس کے جواب میں صدر اوباما نے ان سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ ”آپ ان سے مایوس ہو چکے ہیں لیکن مجھے تو ان سے ہر روز معاملہ کرنا ہوتا ہے”۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دونوں صدور کے درمیان گفتگو فرانس کی جانب سے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو میں فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کی حمایت سے شروع ہوئی تھی اور صدر اوباما نے سارکوزی سے شکوہ کیا کہ انھوں نے فلسطین کی حمایت کے حوالے سے پہلےسے امریکا کو متنبہ نہیں کیا تھا۔
دونوں لیڈروں کے درمیان گذشتہ جمعرات کو کینز میں جی 20 سربراہ کانفرنس کے موقع پر ایک پرائیویٹ کمرے میں گفتگو ہوئی تھی جس میں سربراہ کانفرنس میں اس روز زیر بحث آنے والے امور پر تبادلہ خیال کیا جا رہا تھا اور پھر انھوں نے نیتن یاہو کے حوالے سے گفتگو شروع کر دی تھی۔
مذکورہ ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق سارکوزی اور اوباما دونوں ہی نے نیتن یاہو کے بارے میں مذکورہ الفاظ کہے تھے اور وہ مائیکروفون آن رہ جانے کی وجہ سے منظرعام پر آ گئے ہیں۔البتہ مائیکروفون کھلے رہ جانے کے باوجود میڈیا کے نمائندوں نے دونوں صدور کے درمیان ہونے والی گفتگو کا فوری طور پر نوٹس نہیں لیا تھا اور ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے کوئی تین منٹ تک نیتن یاہو سے متعلق گفتگو کی تھی۔
دوسری جانب وائی نیٹ ڈاٹ کام نے ایک بے نامی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بعض رپورٹروں نے اوباما اور سارکوزی کی گفتگو سنی تھی لیکن اس کی کوری جاس لیے نہیں کی گئی کیونکہ وہاں موجود رپورٹروں سے ایک معاہدے پر دستخط کرائے گئے تھےجس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ جوکچھ رونما ہوا ہے اور انھوں نے جو کچھ سنا ہے،اسکے بارے میں بالکل خاموش رہیں گے۔
ایک صحافی نے سوموار کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ”صحافیوں کے درمیان اس موضوع پر بحث ہوئی تھی جس کے بعد انھوں نے دونوں صدور کی انتہاپسند اسرائیلی وزیراعظم کے حوالے سے گفتگو شائع نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا کیونکہ انکے بہ قول یہ ایک حساس ایشو تھا”۔یہ اور بات ہے کہ اس اتفاق کے باوجود اس گفتگو کے بعض حصے منظرعام پر آ گئے ہیں۔