رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی عہدیدار کو برطانوی پولیس نے چند ہفتے قبل لندن کے ایک بین الاقوامی ہوائی اڈےپر اترنے کے بعد حراست میں لے لیا تھا۔ گرفتار فوجی عہدیدار کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تاہم اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حراست میں لیے گئے عہدیدار کے خلاف برطانیہ کی ایک عدالت میں فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے کا دعویٰ دائر کیا گیا تھا جس پر یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
خیال رہے کہ جولائی اور اگست 2014 ء کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر اکاون دن تک مسلسل جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا تھا جس میں کم سے کم 2300 فلسطینی شہید اور 11 ہزار سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے صہیونی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے تحت کئی عدالتوں میں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ جنگی جرائم کی عدالتوں میں دائر مقدمات میں جو فہرست سامنے آئی ہے اس میں اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سمیت کئی سابق اور حاضر سروس فوجی عہدیداروں کے نام بھی موجود ہیں۔ یورپی یونین کے رکن ملکوں کی مختلف عدالتوں میں فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے تحت اس نوعیت کے کئی مقدمات موجود ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے یورپی یونین اور وہاں کی عدالتوں کو بھی صہیونی جنگی مجرموں کو چھوٹ دیے جانے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ غزہ جنگ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تصاویر کو انٹرنیٹ پرپوسٹ کرنے میں ملوث صہیونی بھی جنگی جرائم کے مرتکب قرار دیے گئے ہیں۔ اس نوعیت کے کیسز میں 60 صہیونی فوجیوں اور افسروں کے نام بتائے جاتے ہیں جنہوں نے شہید ہونے والے بچوں، عورتوں اور بڑی عمر کے افراد کی تصاویر تفنن طبع کے طورپر انٹرنیٹ پر پوسٹ کی تھیں۔ اس پر خود اسرائیل کے عوامی حلقوں میں بھی شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔