رپورٹ کے مطابق سنہ 2001 ء میں پہلی بار فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی سے فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف دیسی ساختہ راکٹوں کا استعمال کیا۔ حال ہی میں بیروت "الزایتونہ اسٹڈی سینٹر” کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں کی راکٹ سازی کی تاریخ اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں پر ایک کتاب کی اشاعت عمل میں لائی گئی ہے۔
کتاب کے مولف جلال القاسم نامی شخص ہیں مگر کتاب کی تیاری کے تمام مراحل کی نگرانی اور سرپرستی ممتاز تجزیہ نگار و صحافی ڈاکٹر محسن محمد صالح نے کی ہے۔ اس کتاب میں سنہ 2001 ء سے 2014 ء تک فلسطینی راکٹوں میں ہونے والی جدت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی شہریوں نے کس طرح بے سرو سامانی کے باوجود 13 سال میں راکٹ سازی کا سفر جاری رکھا اور آج فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس ایسے راکٹ بھی ہیں جو اسرائیل کے زیرقبضہ کسی بھی علاقے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
کتاب میں یہ بتایا گیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس اپنی قوم کےدفاع اور ایک منظم و طاقت وردشمن کے مقابلے کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ بھی ان تمام جدید وسائل اور جنگی ذرائع کو اختیار کریں جو ان کا دشمن استعمال کررہا ہے۔ اگرچہ اب بھی فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے دفاع میں کوئی توازن نہیں ہے۔ مگر فلسطینیوں کے راکٹوں نے ہی صہیونیوں کی رات کی نیندیں اور دن کا چین برباد کر رکھا ہے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2000 ء کی تحریک انتفاضہ نے فلسطینیوں کو اپنے دفاع کے لیے جدید وسائل کے استعمال پر سوچنے کا موقع فراہم کیا۔ یوں کہہ لیجیے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے سنہ 2000 ء کی تحریک انتفاضہ الاقصیٰ سے یہ سبق سیکھا کہ وہ راکٹ سازی کی طرف آئیں۔
کتاب میں فلسطینیوں کی راکٹ سازی کے طریقہ کار، اس میں استعمال ہونے والے مواد اور دیگر تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ راکٹ کس طرح دھماکہ خیزمواد لے جانے اور ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔