اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے خلاف مؤثر سیاسی اقدام کرے اور غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کو یقینی بنائے۔
دوحہ میں سماجی ترقی کی دوسری سربراہی کانفرنس کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گوتیریس نے کہا کہ “وقت آگیا ہے کہ ایک قابلِ اعتماد سیاسی راستہ اختیار کیا جائے جو قابض اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کا خاتمہ کرے، فلسطینی عوام کو ان کا حقِ خود ارادیت فراہم کرے اور دو ریاستی حل کو ممکن بنائے”۔
انہوں نے کہا کہ "ہم غزہ میں جنگ بندی کے تسلسل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، کیونکہ امن کی بحالی اور غزہ و مغربی کنارے کے درمیان تعلق کا قیام فلسطینی وحدت کے لیے ناگزیر ہے”۔
گوتیریس نے واضح کیا کہ "غزہ میں مستقبل میں بننے والا کوئی بھی انتظامی یا سیاسی ڈھانچہ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت قائم ہونا چاہیے اور اس کی قانونی حیثیت اسی تفویض سے حاصل ہوگی”۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی تباہی اور انسانی المیہ ناقابلِ تصور ہے۔ پورا علاقہ ملبے میں بدل چکا ہے۔ اب سب سے بڑی ترجیح تعلیم کے نظام کی بحالی ہے تاکہ فلسطینی نسل اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کر سکے۔
دوسری جانب امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کو ایک مسودہ قرارداد پیش کیا ہے جس میں غزہ میں ایک بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کی تجویز دی گئی ہے۔
عبرانی چینل 12 کے مطابق پیر کی شب پیش کی گئی اس قرارداد میں کہا گیا کہ یہ بین الاقوامی فورس کم از کم دو برس تک غزہ میں تعینات رہے گی۔ یہ مسودہ “حساس مگر غیر خفیہ” قرار دیا گیا ہے اور اس کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو غزہ میں وسیع اختیارات دیے جائیں گے تاکہ وہ “سکیورٹی” کے نام پر علاقے کا کنٹرول سنبھال سکیں۔
یہ فورس کم از کم سنہ 2027ء کے آخر تک اپنے اختیارات برقرار رکھے گی اور اس کی مدت میں توسیع کا امکان بھی موجود ہے۔
گوتیریس کی یہ اپیل ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قابض اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ نے غزہ کو کھنڈر میں بدل دیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور زندگی کے بنیادی ڈھانچے ملبے میں دفن ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کو انصاف، آزادی اور خود ارادیت کے حق کے حصول میں تنہا نہ چھوڑے، کیونکہ یہی انصاف خطے کے پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔