رپورٹ کےمطابق احمد دوابشہ کو پانچ ماہ قبل مغربی کنارے کے نابلس شہر میں یہودی آباد کاروں نے اس کے پورے خاندان سمیت زندہ جلا ڈالا تھا۔ آگ میں جلنے والوں میں اس کا ایک اٹھارہ ماہ کا بھائی سعید، والد علی دوابشہ اور والدہ ریھام دوابشہ زندہ جل کر شہید ہوگئے تھے جب کہ چار سالہ احمد دوابشہ جو پورے خاندان میں زندہ بچ جانے والا واحد بچہ ہے کو اسرائیل کے "تل ھاشومیر” نامی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ یہ انسانیت سوز واقعہ 31 مئی کو پیش آیا۔ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نےجھلسنے والے بچے کا مفت علاج کرانے اعلان کرتے ہوئے اس کارروائی کو بدترین دہشت گردی سے تعبیر کیا تھا۔
گذشتہ روز تل ھاشومیر اسپتال کی انتظامیہ نے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتےہوئے آگ میں جھلسنے والے بچے احمد دوابشہ کے علاج پراٹھنے والے اخراجات کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسپتال کے ڈائریکٹر یوآف مرخائے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ احمد دوابشہ کے علاج پر اسپتال کو اپنی جانب سے اخراجات برداشت کرنا پڑے ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ تل ھاشومیر اسپتال نے 25 اکتوبر کو ان سے ایک مکتوب کے ذریعے احمد دوابشہ کے علاج کی مد میں 2 لاکھ 59 ہزار 643 شیکل کی رقم ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اسی اسپتال نے قبل ازیں 6 اکتوبر کو ایک مکتوب میں 2 لاکھ 16 ہزار 754 شیکل کی رقم احمد کے علاج کی مد میں ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ احمد کے جسم کا 90 فی صد حصہ جھلس گیا تھا اور اس کے علاج پر بھاری اخراجات اُٹھانا پڑے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود دوابشہ خاندان کو آگ میں جلا کر شہید کرنے کے انسانیت واقعے میں ملوث یہودی شرپسندوں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا ہے۔ جن یہودیوں کو فلسطینی خاندان کو زندہ جلانے کے جرم میں قصور وار قرار دیا گیا تھا انہیں رہا کردیا گیا ہے اور وہ کھلے عام دندناتے پھر رہےہیں۔