ترکی کی حکومت نے آئندہ ماہ امریکا میں ہونے والی شمالی اوقیانوس کی تنظیم” نیٹو” کی سربراہ کانفرنس میں اسرائیل کی شرکت کی مخالفت کی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ انقرہ اور تل ابیب دونوں "نیٹو” تنظیم کے رکن ہیں
لیکن ایک رکن ملک کی جانب سے دوسرے کے شہریوں کے قتل عام پر زیادتی کے مرتکب ملک کو سربراہ کانفرنس میں شرکت کا موقع نہیں دیا جا سکتا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ترک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ 20 اور 21 مئی کو امریکی شہر شیکاگو میں ہونے والے نیٹو کے سربراہ اجلاس میں اسرائیلی نمائندوں کی شرکت کی مخالفت کرے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل پہلی مئی 2010ء کو فلسطینی شہر غزہ کی پٹی کے لیے امدادی سامان لے کرجانے والے نو امن رضاکاروں کےقتل پر باضابطہ طور پر معافی مانگے اس کے بعد تل ابیب کو سربراہ کانفرنس میں شرکت کا موقع دینے پرغور کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی بحریہ نے اکتیس مئی سنہ 2010ء کو فلسطینی شہرغزہ کی پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے ترکی کے بحری جہازوں پرحملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں کم سے کم نوا فراد شہید اور پچاس سےزائد زخمی ہوگئے تھے۔ اسرائیلی فوج نےامدادی جہازوں پرلادا گیا سامان بھی لوٹ لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے امریکا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔
ادھر انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک وزیرخارجہ احمد داؤد اوگلو نے کہا کہ "ترکی کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ نیٹو کے پلیٹ فارم سے اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرے۔ کیونکہ اسرائیل نے دو سال قبل ہمارے نو شہریوں کو محض اس وجہ سےگولیاں مار کرشہید کردیا تھا کہ وہ فلسطینی محصورین کےلیے امدادی سامان لے جا رہے تھے۔ وہ کوئی جنگجو نہیں تھے اور نہ ہی ان سے اسرائیل کو کوئی خطرہ لاحق تھا”۔
ترکی کی جانب سے اسرائیل کو نیٹو سربراہ اجلاس میں شرکت سے روکے جانے پرنیٹو کے سیکرٹری جنرل انڈریس فوگ راسموسن نے کہا ہےکہ فی الحال انہوں نے اسرائیل کو نیٹو اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت ہی نہیں دی۔ برسلزمیں یورپی یونین کی خارجہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں مسٹر راسموسن کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ نیٹو کے اہم رکن ترکی کی جانب سے شیکاگو سربراہ اجلاس میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال انہوں نے نیٹو کے سربراہ اجلاس میں اسرائیل کو شریک کیے جانے کے بارے میں کسی تجویز پرغور نہیں کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک ترکی کا یہ مطالبہ قبل از وقت ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین