رپورٹ کے مطابق اکتوبر کے اوائل سے فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ کو کچلنے کے لیے اسرائیلی کابینہ نے متعدد قوانین کی منظوری دی تھی جن میں سنگ باری کرنے والے فلسطینی نوجوانوں کو کڑی سزائیں دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ روز اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایک مسودہ قانون پر دوسری اور تیسری مرتبہ رائے شماری کی گئی۔ تیسری رائے شماری میں مسودہ قانون کی منظوری دے دی گئی ہے۔ نئے قانون کے تحت سنگ باری کرنے کو قابل سزا جرم قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کو نہ صرف طویل مدت تک جیلوں میں ڈالا جا سکے گا بلکہ ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کے ساتھ انہیں حاصل سرکاری اور شہری حقوق و مراعات واپس لے لی جائیں گی۔ نیز ان کے گھر مسمار اور ان کی شہریت منسوخ کرنے کے بعد بیت المقدس سے بے دخل بھی کیا جاسکے گا۔
رپورٹ میں نئے قانون کے حوالے سے بتایا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس اور سنہ 1948 ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے تعلق رکھنے والے فلسطینی نوجوانوں کو سنگ باری کے جرم میں نہ صرف قید کیا جائے گا بلکہ ان کے اہل خانہ کو 10 ہزار شیکل تک جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔
مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ یہودی آباد کاروں اور فوجیوں پر سنگ باری کرنے والے فلسطینیوں کو چار سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] کے عرب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سنگ باری سے متعلق قانون کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اس کی منظوری پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ مخالف ارکان کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کی بدنیتی کا اظہار یہاں سے ہوتا ہے کہ اگر جرم بیٹا کرے گا تو سزا اس کے والد کو دی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ نے پتھراؤ کرنے کو "مہلک” قرار دیتے ہوئے اسے چاقو سے حملے کے مترادف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ چاقو سے حملوں اور سنگ باری کے مرتکب افراد کو یکساں سزا دی جائے گی۔