فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مکارم ویبی سونو نے جنیوا میں قائم انسانی حقوق کونسل کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کردی ہے۔اس میں انھوں نے اسرائیلی حکام پر زوردیا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے سے انتظامی حراست میں لیے گئے فلسطینیوں کو یا تو رہا کریں یا پھر ان کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے کارروائی کا آغاز کریں۔
انھوں نے کہا ہے کہ ”مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تشدد میں اضافہ انسانی حقوق کی غیر پائیدار صورت حال کا بھی عکاس ہے اور یہ ناپائیدار ماحول کسی بھی وقت خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے”۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے حسب روایت اس رپورٹ کو متعصبانہ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان عمانوایل نہاشون نے اس کے ردعمل میں بیان میں کہا ہے کہ ”رپورٹ یک طرفہ مینڈیٹ اور اسرائیل مخالف تعصب کی عکاس ہے۔یہ یک طرفہ پن ہی تھا جس کی وجہ سے نمائندے کے مشن کی تکمیل ناممکن ہوگئی اور معاملہ ان کے استعفے پر منتج ہوا”۔
ویبی سونو نے گذشتہ ماہ اپنی آزادانہ ذمے داریوں سے سبکدوش ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ان کا استعفیٰ 31 مارچ سے موثر ہوگا۔انھوں نے اسرائیل پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ غزہ اور غربِ اردن تک انھیں رسائی دینے کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہا ہے۔
انھوں نے جمعرات کو رپورٹ کے اجراء کے وقت کہا ہے کہ غربِ اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آبادکاروں کو غیر قانونی طور پر بسانے کی سرگرمیوں، تقسیمی دیوار کی تعمیر اور غزہ کی پٹی کے محاصرے کی وجہ سے تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔یہ اقدامات فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کو ان ایشوز کو حل کرنا چاہیے،بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنی چاہیے اور فلسطینیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔
ویبی سونو نے اسرائیل کی انسانی حقوق کی تنظیم بی تسلیم کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے اکتوبر 2015ء تک 5680 فلسطینیوں کو گرفتار کیا تھا۔ان میں سیکڑوں کم سن بچے بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن فلسطینیوں کو انتظامی حراست میں لیا گیا تھا،ان کی حراست کی مدت کی ہر چھے ماہ کے بعد تجدید کردی جاتی ہے اور یہ قانون انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔اس لیے اسرائیلی حکومت فوری طور پر انتظامی حراست میں لیے گئے تمام فلسطینیوں کو رہا کرے یا پھر ان کے خلاف مقدمات چلائے۔
