فلسطین کی منظم مذہبی اور سیاسی تحریک اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘حماس’’ کے مرکزی رہ نما اور جماعت کے خارجہ امور کے نگران اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ مصر کے نو منتخب صدر مصری اور فلسطینی قوم کی علامت ہیں۔
ان سے فلسطینی قوم کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر محمد مرسی پر زور دیا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل اور فلسطینیوں کے سلب شدہ حقوق کی بحالی کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے رہ نماء اسامہ حمدان نے ان خیالات کا اظہار لبنان کے دارالحکومت بیروت میں صحافیوں سے گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مصر میں اخوان المسلمون کے لیڈر ڈاکٹر محمد مرسی کا بطور صدر انتخاب مصری قوم بالخصوص انقلابیوں کے خواب کی تعبیر ہے۔ ڈاکٹر مرسی کی کامیابی سے مصر اپنی عظمت رفتہ کی بحالی اور خطے اور عالمی سطح پر اپنے قائدانہ کردار کی بحالی میں کامیاب ہو جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں حماس کے رہ نما نے کہا کہ فلسطین میں بے اتفاقی کو ختم کرنے اور مفاہمت کو یقینی بنانے کے لیے اسی طرح کی عوامی تحریک چلانے کی ضرورت ہے جس طرح مصری شہریوں نے سابق صدر حسنی مبارک کے تیس سالہ استبدادی نظام کےخلاف گذشتہ برس چلائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطینی عوام متحد نہیں ہوں گے اس وقت تک ہم اپنے حقوق حاصل نہیں کرسکتے اور جب تک عوام سڑکوں پر نہیں نکلتے فلسطینی سیاسی جماعتیں بھی متحد نہیں ہوں گی۔ اسامہ حمدان نے مصر کے نو منتخب صدر کی ذمہ داریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈاکٹر محمد مرسی کے کندھوں پر غیر معمولی بوجھ ہے۔ انہیں پچھلے تین عشروں سے ملکی سیاست میں پھیلے گند کو صاف کرنا ہے۔ ان کی ایک بڑی ذمہ داری مصر کی علاقائی اور عالمی حیثیت کو بحال کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ توقع بھی ہے کہ مصری صدر ان تمام مشکلات اور چیلنجز سے احسن طریقے سے عہدہ برآ ہوں گے’’۔
انہوں نے کہا کہ سابق مصری صدر حسنی مبارک نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرکے فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے غداری کی تھی۔ وہ مصر کے نئے صدر سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ سابق حکومت کی تمام غلطیوں کا ازالہ کریں گے اور فلسطینیوں کے سلب شدہ حقوق انہیں واپس دلائیں گے۔
حماس رہ نما نے فلسطینی عوام پر زور دیا کہ وہ مسلح مزاحمت کے پروگرام کے تحت متحد ہو جائیں کیونکہ فلسطینیوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے آپس میں اتحاد اور یگانگت کےقیام کی اشدت ضرورت ہے۔ فلسطینیوں کا آپس میں اتحاد اور اتفاق ہی عالمی برادری کو ان کے حقوق کی بحالی پر مجبور کرسکتا ہے۔ اسامہ حمدان سے جب پوچھا گیا کہ اگر مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت نے بھی کیمپ ڈیوڈ معاہدہ تسلیم کرلیا تو کیا اس کے فلسطینی تحریک مزاحمت پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے۔ اس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ مصر کی نئی حکومت وہی کچھ کرے گی جو مصری قوم کے مفاد میں ہوگا اور مصری قوم کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے خلاف ہے۔ ایسے میں توقع یہی کی جاسکتی ہے کہ مصری حکومت کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کی اپنی غلطی کو نہیں دہرائے گی۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین