اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے پارلیمان بلاک ’’تبدیلی و اصلاح‘‘کے مغربی کنارے سے منتخب اراکین پارلیمان نے فتح اور حماس کے مابین پیر کے روز دوحہ میں ہونے والے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ معروف فلسطینی رہنماؤں نے دوحہ اعلامیے پر جلد از جلد عمل کا مطالبہ بھی کیا۔
متعدد فلسطینی اراکین پارلیمان نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے نمائندوں سے الگ الگ گفتگو کرتے ہوئے ایک ہی جملے پر زور دیا کہ اب اس اعلامیے پر بلاتاخیر عمل ہونا ضروری ہے۔ بعض اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینی دستور کے خلاف ہونے کے باوجود اس معاہدے کی تائید کر رہے ہیں جس کا مقصد فلسطینی قوم کو اختلافات سے نکالنا ہے۔
اس موقع پر حماس کے اراکین پارلیمان نے میڈیا پر پھیلائے جانے والے اس تاثر کی نفی کی کہ یہ معاہدہ داخلی سطح پر حماس رہنماؤں کی آراء کے خلاف طے پایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قطر کے دارالخلافے دوحہ میں ہونے والے اس معاہدے کو حماس کی تمام قیادت کی حمایت حاصل ہےاور یہ اعلامیہ حماس کی مجلس شوری کی جانب سے منظور کیا گیا ہے۔
رکن پارلیمان احمد عطون نے بتایا کہ فلسطینی مفاہمت اصل ہے اور فلسطینی اختلافات ھنگامی صورتحال کا شاخسانہ تھے۔ یہ اختلافات اصولی نہیں بلکہ سیاسی تھے۔ دوحہ اعلامیے کا مقصد اس ھنگامی اختلافی حالت سے باہر آنا ہے۔
رکن پارلیمان منی منصور کا کہنا تھا کہ وہ مفاہمت کے ساتھ ہوں کیونکہ فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے مفاہمت ایک اسٹریٹجک آپشن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم مختلف معاہدوں سے اکتا چکے ہیں وہ اب عملی طور پر دوحہ اعلامیے پر عمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فتح کے ساتھ ستمبر 2005، مئی 2001 اور نومبر 2011 میں معاہدے کیے اور اب فروری 2012 میں معاہدہ کیا گیا ہے۔ ان ساری سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماسمفاہمت کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔
حماس کے رہنما اور فلسطینی رکن پارلیمان ریاض العملہ نےاس موقع پر کہا کہ فلسطینی مفاہمت ہر اعتبار سے قوم کے حق میں ہے تاہم مسئلہ یہ ہےکہ فلسطینی اتھارٹی کے سیاسی اور سکیورٹی کے گروہ الگ ہیں، خدشہ اس بات کا ہے کہ سکیورٹی عہدیداران اس اعلامیے پر عمل سے گریز کی کوشش کریں گے۔
فتحی قرعاوی کا کہنا تھا کہ مفاہمت کے سلسلے میں حالیہ دوحہ اعلامیہ انتہائی مشکلات کے بعد حاصل ہوا ہے تاہم اب اس پر من و عن عمل کی ضرورت ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہم متحدہ قومی حکومت کے ساتھ ہیں اگرچہ محمود عباس کو وزیر اعظم بنانا فلسطینی دستور کی خلاف ورزی ہے تاہم فریقین کو متحد کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ ہم نے محمود عباس کی وزارت عظمی سے صرف نظر کرتے ہوئے قوم کے اتفاق کو پیش نظر رکھا ہے۔
اس موقع پر سمیرہ الحلایقہ نے بھی قطر اعلامیے کو درست سمت اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے قومی مفاہمت کے حصول کی راہ کی اہم کڑی ثابت ہو گا جس کے فلسطینی عوام پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔