فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے ساتھ مفاہمتی معاہدے کے تحت مغربی کنارے میں تمام سیاسی اسیران کی فوری رہائی کی یقین دہانی کے باوجود درجنوں افراد اب بھی زیرحراست ہیں۔ جس کے باعث شہری سراپا احتجاج ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسیران کے اہل خانہ پر مشتمل کمیٹی اور یوتھ مسلم لیگ کےزیراہتمام فلسطین کے تاریخی شہر الخلیل میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں ہزاروں افراد جن میں عورتیں، مرد اور بچے شامل تھے نے شرکت کی۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ مفاہمتی معاہدے پرعمل درآمد یقینی بناتے ہوئے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کرے۔
مظاہرین نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر ملازمتوں سے فارغ کیے گئے تمام شہریوں کو دوبارہ ان کی ملازمتوں پر رکھنے کے حق میں بھی نعرے بازی کی۔ نیز سیکیورٹی فورسز کی جانب سے جامعات اور کالجوں کے طلباء کی پکڑ دھکڑ کی بھی شدید مذمت کی گئی۔
عینی شاہدین کے مطابق جمعرات کے روز الخلیل میں نکالی گئی اس ریلی میں پہلی مرتبہ طلباء اور انسانی حقوق کے مندوبین بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس موقع پرفلسطینی اسیر احمدالزعتری کی والدہ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے بیٹے سمیت درجنوں محروسین کوعباس ملیشیا کی انٹیلی جنس کی جانب سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے باعثوہ بات کرنے بھی قدرت بھی کھو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹارچر سیلوں میں بے گناہ شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد انہیں عدالتوں میں سنگین اور جنگی مجرم کے طور پر پیش کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس موقع پراہالیان اسیران کمیٹی کی جانب سے اس سال سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیے گئے کارکنوں کی تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال 1010 سیاسی کارکن گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالے گئے۔ ان میں 464ء سیاسی کارکن مئی میں حماس اور فتح کے درمیان مفاہمتی معاہدے کے اعلان کے بعد پکڑ کر قید خانوں میں ڈالے گئے۔110 شہریوں کو گذشتہ ماہ قاہرہ میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل اور صدر محمود عباس کے درمیان ملاقات کے بعد گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے ابھی تک ایک سو دس شہری عباس ملیشیا کی جیلوں میں تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔