اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کی غزہ میں قومی مفاہمت کے فروغ کو یقینی بنانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود غرب اردن میں حماس کے کارکنوں کی سیاسی گرفتاریاں اور فلسطینی انتظامیہ کے تھانوں میں طلبی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
شہری آزادی اور بحالی اعتماد کمیٹی نے غزہ میں اپنے حالیہ اجلاس کے دوران مغربی کنارہ میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کے معاملے پر غور کیا اور مطالبہ کیا کہ ایسی کارروائیاں فی الفور بند کی جائیں، تاہم اس مطالبے کے باوجود سیاسی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سیاسی تجزیہ کار مصطفی الصواف نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے قومی مفاہمتی عمل کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہوں نےکہا کہ فلسطینی انتظامیہ حماس کے کارکنوں کو سیاسی بنیاد پر گرفتار کر رہی۔ انہیں تھانوں میں طلب کیا جا رہا ہے۔ نیز حماس سے سیاسی وابستگی کی پاداش میں اداروں کی بندش اور سرکاری ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ قومی مفاہمت کے لئے کیا صرف غزہ میں ہی سیاسی اختلافات کا خاتمہ ضروری ہے، کیا ایسا عمل مغربی کنارہ میں ضروری نہیں۔”؟
مصطفی صواف کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی انتظامیہ کے سیکیورٹی اداروں کے حماس کے خلاف اقدامات قاہرہ میں ہونے والے مصالحتی اجلاس کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ سیاسی گرفتاریوں کے مٶخر یا معطل عمل کی وجہ سے قاہرہ مذاکرات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔
مغربی کنارے کے متعدد شہروں میں فلسطینی انتظامیہ کے سیکیورٹی اداروں نے ابتک تیس افراد کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا ہے، ان میں گیارہ افراد ایسے ہیں جنہیں ماضی میں بھی حراست میں لیا جاتا رہا ہے۔
ادھر ‘فتح’ تحریک کے رہنما یحی رباح نے قاہرہ میں پانچ مفاہمتی کمیٹیوں کے اجلاس کو ‘بے فائدہ’ قرار دیا ہے۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین