اسرائیلی جیل میں زیرحراست اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے ایک سینئیر رہ نما اور اسیران کی سپریم کمیٹی کے قائد عباس السید نے جیل میں صہیونی میڈیا کو انٹرویو دینے سے انکار کردیا۔ ان سے یہ انٹرویو غزہ کی پٹی پرحال ہی میں مسلط کردہ جنگ کے بعد لینے کی کوشش کی گئی تھی۔
فلسطینی اسیران کے حقوق پر نظررکھنے والے گروپ’’ اسٹڈی سینٹر برائے حقوق اسیران‘‘ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی حکام نے جیل میں اسیر رہ نما عباس السید کا عبرانی میڈیا کو انٹرویو کرانے کا اہتمام کیا تھا۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے نمائندگان کو جیل لایا گیا۔ تاہم عباس السید نے ان سے کسی بھی قسم کی بات چیت کرنےسے انکار کردیا۔
اسیر رہ نما عباس السید نے انسانی حقوق کی تنظیم کے نام اپنے مراسلے میں بتایا ہے کہ نومبر کے وسط میں غزہ کی پٹی پراسرائیلی فوج کی یلغار کے بعد اسے جیل کے ڈائریکٹر کے دفترمیں لایا گیا، جہاں پرفوج، ملٹری انٹیلی جنس کے افسران، خفیہ اداروں کے سول کپڑوں میں ملبوس اہلکار اور صہیونی میڈیا کے نمائندوں کی ایک ٹیم بھی موجود تھی۔
میں جیسے ہی جیل کے ڈائریکٹر کے دفترمیں پہنچا تو جیل افسرنے میڈیا کے نمائندوں سے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس اس(اسیر) سے بات چیت کے لیے 45 منٹ ہیں۔ یہ کہہ کرمیڈیا کے نمائندوں کےسوا باقی تمام اہلکار وہاں سے نکل گئے۔ بعد ازاں مجھ سے اخبار’’ہارٹز‘‘ کے ایک صحافی اور کالم نگار آوی سخروف،اسرائیلی ٹی وی 10 کے زیپی یحزکیلی، کئی دیگرصحافیوں نے مجھ سے بات چیت شروع کی۔ اس دوران فوٹو گرافروں نے میری تصاویر بھی اتاریں تاہم میں نے صہیونی میڈیا ٹیم کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت سے صاف انکار کردیا تھا۔‘‘
عباس السید کا کہنا تھا کہ صہیونی میڈیا نمائندوں نے مجھے کہا کہ ہم کسی خاص موضوع پربات نہیں کرنا چاہتے۔ تمام موضوعات اور عنوانات کھلے ہیں آپ جس موضوع پربات کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر کہا کہ ہم اس وقت غزہ کی پٹی میں حالت جنگ میں ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی جنگ میں ایک سپاہی کے طورپر کام کر رہا ہے۔ یہ ہماری پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے۔ آپ اس موضوع پر کیا بات کریں گے۔ میں نے ان کے اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ عباس السید کے مطابق صہیونی صحافیوں نے اسیران کے ساتھ جیلروں کے رویے سمیت کئی دیگر سوالات بھی پوچھے تاہم میں نے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور صحافیوں کو مایوس واپس لوٹنا پڑا۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین