اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے پولیٹ بیور خالد مشعل نے ایک ہفتہ قبل اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں یہودی آباد کاروں کی بس میں ہوئے بم دھماکے میں حماس کے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حماس سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ بلا جواز اور حیران کن ہے۔ اس وقت فلسطینی ریاست کوعالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے نہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی۔ حماس کسی صورت میں اسرائیل کو ایک قانونی ملک تسلیم نہیں کرے گی۔
خالد مشعل نے ان خیالات کا اظہار امریکی ٹی وی ’’سی این این‘‘ کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں کیا ہے۔ خالد مشعل کا امریکی ٹی وی کو یہ پہلا تفصیلی انٹرویو ہے۔
ایران اور شام سے حماس کے تعلقات ختم ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ دمشق اور تہران سے حماس کے تعلقات اس لیے ختم ہوگئے تھے کہ حماس نے سنہ 1967ء کی حدود میں فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی تھی۔
امریکی صحافی اور سی این این کی نامہ نگار کریسٹن امانپور سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مشعل نے واضح کیا کہ غزہ کی پٹی پر پچھلے دنوں حملے کی تمام ترذمہ داری اسرائیلی دشمن پر عائد ہوتی ہےکیونکہ جنگ کا آغاز اسرائیلی فوج نے غزہ میں دراندازی کے بعد ایک فضائی حملے میں حماس کے کمانڈر احمد الجعبری کوٹارگٹ کلنگ میں شہید کرکے کیا ہے۔ جنگ کا اغاز دشمن نے کیا لیکن جنگ بندی ہماری شرائط کے تحت عمل میں آئی۔ انہوں نے ٹی وی کی نامہ نگار کے اس سوال کی نفی کی کہ حماس سولین کو نشانہ بنا رہی ہے۔
خاتون نامہ نگار نے دوبارہ یہی سوال پوچھا کہ کیا حماس سولین کو قتل کرنے پر یقین رکھتی ہے؟ تو خالد مشعل نے اس کا تفصیلی جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ قیام اسرائیل سے قبل یہاں کوئی کسی پرحملے نہیں کرتا تھا۔ عالمی قانون کی رو سے یہاں ہمارے وطن میں اسرائیل کے نام سے ایک ملک قائم کیا گیا۔ چونکہ عالمی قوانین کی رو سے مظلوم اقوام ظالم کے خلاف اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہرقسم کی جدو جہد کا حق رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کو بھی اپنے حقوق کےحصول کے لیے مزاحمت کاحق حاصل ہے۔ ہماری مسلح جدو جہد کا ہدف سولین نہیں ہیں اور نہ ہی مجاہدین سولین پر حملے کرتے ہیں۔ کیا آپ یہ سوال پوچھنے سے قبل غزہ میں دیر یاسین اورصبرا اورشاتیلا کے صہیونی مظالم کا مطالعہ کرچکی ہیں، جس میں اسرائیلی فوج نے کس سفاکیت کے ساتھ ہزاروں فلسطینی سولینز کو شہید کردیا تھا۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ ہم مسلح مزاحمت اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے اپنے دشمن کو سلب شدہ حقوق واپس کرنےپر مجبور کرسکیں۔ اگر عالمی برادری ہمیں ہمارے حقوق اور مطالبات بات چیت کے ذریعے پورے کرادیتی ہے تو ہم اسلحہ چھوڑ دیں گے۔ لیکن اس کی کیا ضمانت ہے کہ ہم اسلحہ چھوڑ دیں اور دشمن ہمارے حقوق بھی ہمیں واپس نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امن بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کی بات کی جائے تو سابق صدر یاسرعرفات مرحوم نے عالمی برادری اور اسرائیل کو یہ موقع دیا تھا، لیکن ان کے ساتھ اسرائیل نے کیا سلوک کیا۔ کئی سال تک انہیں ان کے ہیڈ کواٹر میں نظر بند کردیا گیا اور بعد میں قتل کردیا۔ ان کے جانشین محمود عباس نے بھی مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ عالمی برادری نے اس کا خیر مقدم تو کیا لیکن آج تک ان مذاکرات سے ملا کیا ہے۔ عالمی برادری نے صدر عباس کو تنہا چھوڑ دیا اور آج وہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔
خالد مشعل نے کہا کہ آج اسرائیل میں بنجمن نیتن یاھو وزیراعظم ہیں، ماضی میں ان کے حریف تھے۔ اسرائیل میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ فلسطینیوں کو محصور کرکے ہمارے وطن میں یہودی آباد کاری کرتی ہے، جب ہم مزاحمت کرتے ہیں توہمارا ہی قتل عام کیا جاتا ہے اورپھر ہم ہی سے کہا جاتا ہے کہ سفید پرچم لہرا دو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔
اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بارے میں خالد مشعل نے کہا کہ کوئی مظلوم ظالم کے ظلم کو تسلیم نہیں کرسکتا اور نہ ہی مظلوم سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ فلسطینی عوام مظلوم ہیں۔ اسرائیل کےپاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ دنیا پہلے اسرائیل سے یہ تسلیم کرائے کہ عربوں اور فلسطینیوں کے حقوق ہیںانہیں ملنے چاہئیں۔ چند سال قبل عرب ملکوں کی طرف سے بھی ایک امن روڈ میپ جاری کیا گیا تھا لیکن وہ کہاں گیا۔ فلسطینیوں کا خون تو اب بھی بہہ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا، یورپی یونین اور عالمی برادری فلسطینیوں سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیوں کرتی ہے۔ یہ مطالبہ اسرائیل سے کیوں نہیں کیا جاتا۔ ہمارا کم سے کم مطالبہ یہ ہے کہ اسرئیل 1967ء کی حدود سے پہلے والی پوزیشن میں چلا جائے۔ جلا وطن فلسطینیوں کو ان کے آبائی شہروں میں آباد ہونے کا حق دیا جائے اور اسرائیلی جیلوں میں قید تمام فلسطینیوں کو رہا کیا جائے۔ ہم اسرائیل کوکیوں کر تسلیم کریں۔ اسرائیل ہمارے یہ مطالبات تسلیم کرے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین