اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے ان کا دورہ نہایت کامیاب اورنتیجہ خیزرہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مصر کی نئی حکومت کو مسئلہ فلسطین کو اولین ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے لیڈر نے ان خیالات کا اظہار اردن میں صحافیوں اور اخبار نویسوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ حماس الفتح کے ساتھ مفاہمت میں سنجیدہ ہے اور قومی مفاہمت کے قیام کی راہ میں جتنی رکاوٹیں حائل ہیں انہیں جلد دور کر لیا جائے گا۔
خالد مشعل نے صحافیوں کو اپنے دورہ اردن کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور کہا کہ ان کا یہ دورہ نہایت کامیاب رہا ہے۔ وہ اردن کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں۔ ان کی جماعت حماس اور اردن کی نئی حکومت کے درمیان مسلسل رابطے موجود ہیں اور آنے والے دنوں میں ان رابطوں کو مزید مضبوط بنائیں گے۔
قومی مصالحت پر زور
صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ فلسطین میں قومی مفاہمت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے جتنا زور ان کی جماعت نے صرف کیا ہے کہ اتنا کسی دوسری جماعت نے نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی ملاقات جلد صدر محمود عباس کے ساتھ دوبارہ ہوگی اور وہ مفاہمت کے فارمولے اور ملک میں قومی حکومت کے قیام کو حتمی شکل دیں گے۔
خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی سیاسی جماعتوں کو مفاہمت کے لیے ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ طے کرنا پڑا ہے۔ اب بھی مفاہمت کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں موجود ہیں۔ بعض ممالک الفتح پر مفاہمت کے سلسلے میں اثر انداز ہو رہے ہیں تاکہ حماس اور الفتح کے درمیان دوستی کا پودا پروان نہ چڑھنے پائے اور فلسطینی بدستور ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہیں۔ لیکن اب الفتح کی قیادت کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے اور قومی حقوق و اصول و مبادی کی جنگ لڑنے کے لیے انہیں لا محالہ مفاہمت کی راہ پرآنا پڑے گا۔
اردن کے ساتھ حماس کے تعلقات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حماس عمان کے ساتھ دوستی اور تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہے۔ ان کا حالیہ دورہ اردن نہایت کامیاب اور مثمر رہا ہے۔ اس دوران ان کی قیادت میں حماس کے وفد کی شاہ عبداللہ دوم اور حکومت کے تمام اعلیٰ عہدیداروں سے تفصیلی مذاکرات ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات سے یہ ثبات ہوتاہے کہ اردنی حکومت مفاہمت میں تاخیر کے اسباب پر بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ اگر غیرملکی مداخلت اور دباؤ کی سازشیں نہ ہوتیں تو آج تک قومی مفاہمت اپنی منزل پاچکی ہوتی لیکن فلسطینی قوم کا یہ خواب غیرملکی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے شرمندہ تعبیر ہونے سے رہا ہے۔
مصر اور مسئلہ فلسطین
مصر اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں حماس رہ نما نے تفصیل سے بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ مصر کی ما بعد انقلاب حکومت کو فلسطین کا مسئلہ اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھنا چاہیے۔ خالد مشعل نے کہا کہ اسرائیل نے گذشتہ چھ سال سے فلسطینی شہر غزہ کی پٹی کی معاشی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ ایسے میں مصر کی انقلابی حکومت کو فلسطینیوں کو ان کے حقوق کی فراہمی میں کسی تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ فلسطینی عوام کی امیدوں کا آخری مرکز اس وقت مصر کی نئی حکومت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہ نما نے کہ وہ مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے دورہ غزہ کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ انہیں توقع ہےکہ مصر کے نئے صدر جلد غزہ کے محصورین سے یکجہتی کے لیے دورہ کریں گے۔
عرب ممالک میں جاری عرب بہاریہ کے بارے میں خالد مشعل نے کہ انقلاب کی تحریک عالم اسلام کے لیے خیر اور بھلائی کی تحریک ہے۔ اس کے نتیجے میں جن ممالک میں حکومتیں تبدیل ہو رہی ہیں وہاں پر نئے نظام عادلانہ طرز حکمرانی اور انسانی حقوق اور آزدیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عرب بہاریہ کا سب سے زیادہ فائدہ فلسطینیوں کو ہوا اور سب سے زیادہ نقصان صہیونی توسیع پسندانہ عزائم کو پہنچا ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین