فلسطین کی منظم مذہبی سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے واضح کیا ہے کہ صدر محمود عباس اور دیگر فلسطینی جماعتوں کے ساتھ سیاسی شراکت کا فیصلہ صرف اور صرف قومی مفادات کے تحت کیا ہے، اسرائیل سمیت کسی دوسرے ملک کو اس سے تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹرصلاح الدین بردویل نے عرب خبررساں ایجنسی "قدس پریس” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے صدر محمود عباس کی جماعت الفتح اور دیگر فلسطینی سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی شراکت کے لیے مذاکرات صرف قومی مفادات کی خاطر کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حماس اسرائیل کے ساتھکسی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گی۔ اسرائیل کے بارے میں حماس کا نقطہ نظراب بھی وہی ہے جس اس سے قبل تھا۔
ایک سوال کےجواب میں حماس رہ نما نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے اس بیان کو "مضحکہ خیز” قرار دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ تل ابیب فلسطین کی کسی ایسی حکومت سےمذاکرات نہیں کرے گی جس میں حماس شامل ہو گی۔
حماس رہ نمانے کہا اسرائیلی وزیراعظم کا بیان میڈیا کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی ایک روایتی سازش ہے، ان کے نزدیک اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔
ڈاکٹر بردویل کا کہنا تھا کہ نیتن یاھو اور اسرائیل کے دیگراعلیٰ حکام یہ سمجھتے ہیں کہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے قومی حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اسرائیلیوں کی گمراہ کن سوچ اور غلط فہمی ہے۔ حماس نے اسرائیل سے مذاکرات کے لیےنہیں بلکہ صرف اور صرف قومی مفاد کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی شراکت کافیصلہ کیا ہے۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ وہ فلسطینی قوم کا تحفظ اور اس کے سلب شدہ حقوق کے حصول کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہتی ہے۔اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر بردویل نے کہا کہ صہیونی دشمن فلسطین میں اپنی نسل پرستانہ روش پرقائم ہے حماس دیگر فلسطینی جماعتوں کے ساتھ مل کر صہیونی دشمن کو اس کی ان سازشوں سے روکنے کےلیے کوششیں کرے گی۔