اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے دوحہ میں اپنی تازہ ملاقات میں فلسطینی صدارتی اور عام انتخابات انتظامی وجوہات کی بنا پر موخر کرنے اور عباس کوعارضی طور پر نگرانی فلسطینی حکومت کا وزیر اعظم بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔
خالد مشعل نے معاہدے پر دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حماس اور فتح فلسطینی اختلافات ختم کرنے اور قومی اتحاد قائم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ اس دوران امیر قطر کی نگرانی میں فتح اور حماس کے وفود کے اتفاق سے’’دوحہ اعلان‘‘ پر دستخط کیے گئے۔
دوحہ میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل اورمحمود عباس نے دو طرفہ بات چیت سے قبل امیر قطر سے علاحدہ اور بعد ازاں اجتماعی ملاقات بھی کی۔ عزام احمد کا کہنا تھا کہ دونوں رہ نماؤں کے مابین بات چیت میں مفاہمتی امور کو جلد ازجلد آگے بڑھانے اور قومی حکومت کے قیام میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت میں مفاہمتی مذاکرات کا عمل آگے بڑھانے والے کمیٹیوں کو درپیش مشکلات کا بھی جائزہ لیا گیا۔
پیر کے روز ہونے والے اس دوحہ اعلان کے مطابق حالیہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی سربراہی میں ایک نگران عبوری فلسطینی حکومت تشکیل دی جائے گی جس کا کام آئندہ صدارتی اور پارلیمان انتخابات کی راہ ہموارکرنا اور غزہ کی تعمیر نو کا آغاز کرنا ہو گا۔
معاہدے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ فلسطینی انتخابات کے ساتھ ساتھ قومی کمیٹی کی تشکیل کے ذریعے سے تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی بھی تنظیم نو کی جائے گی۔ 2006ء کے عام انتخابات میں بالترتیب 74 اور45 نشستیں حاصل کرکے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والی حماس اور فتح اٹھارہ فروری کو دوبارہ ملنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
معاہدے میں گزشتہ برس 31 مئی کو دونوں جماعتوں کے مابین قاھرہ میں ہونے والے مفاہمتی معاہدے کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹیوں کے کام کو جاری رکھنے پر بھی زور دیا گیا۔ ان کمیٹیوں میں بنیادی آزادیوں کی مانیٹرنگ کمیٹی اسیران امور، اداروں کے کام کرنے کی آزادی، سفر کی آزادی، پاسپورٹ کے اجراء، روزگار کے چناؤ اور دیگر امور پر کام کر رہی ہے۔ اسی طرح سماجی مفاہمت کی کمیٹی بھی مغربی کنارے اور غزہ میں مفاہمت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہے گی۔
اس موقع پر محمود عباس نے دوحہ میں موجود حاضرین کو مغربی کنارے میں سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیے گئے 64 اسیران کی رہائی کی خبر بھی دی۔ دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ قاھرہ میں ہونے والی مفاہمت پر عمل درآمد کرتے ہوئے سنٹرل الیکشن کمیشن کی سرگرمیوں کا آغاز بھی جلد کر دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ فلسطینی سیاسی دھڑوں نے گذشتہ برس قاہرہ کی کوششوں سے باہمی مفاہمت کے ایک معاہدے پراتفاق کیا تھا۔ مصری مساعی سے کیے گئے اسمعاہدے میں دونوں بڑی جماعتوں حماس اور فتح کی قیادت نے قومی حکومت کے قیام اورتنظیم آزادی فلسطین کی تشکیل پر اتفاق کیا تھا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے میں ایک دوسرے پر الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
فلسطینی شہر غزہ کی پٹی میں حکمراں اسلامی مذہبی سیاسی جماعت حماس کو گلہ ہے کہ مغربی کنارے میں اس کی سیاسی حریف فتح کی حکومت اس کے ارکان کے ساتھ انتقامی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور حماس کے کارکنوں کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کر رہی ہے۔ حماس اس ضمن میں بنیادی آزادیوں کی مانیٹرنگ کمیٹی کو 104 افراد کی فہرست بھی مہیا کر چکی ہے جنہیں سیاسی اختلافات کی پاداش میں گرفتارکیا گیا یہی وجہ ہے کہ مغربی کنارے میں حماس کے درجنوں کارکنوں اور رہ نماؤں کی گرفتاریاں مفاہمت کے عمل میں بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہیں۔