ابو مرزوق نے یہ بیان فلسطینی مزاحمت کی نصرت کے لیے قائم ”عرب فرنٹ” کی جانب سے منعقد ایک ایک تقریب کے دوران دیا۔ منگل کی شام انہوں نے صحافیوں کی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں ”فلسطینی کب تک مصر میں رہینگے” کے عنوان سے منعقدہ اس تقریب میں شرکت کی اور تقریب کے عنوان پر حیرت کا اظہار بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اردن میں پینتیس لاکھ فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں، سعودی عرب میں تین لاکھ، شام میں 67 ہزار فلسطینی مہاجرین موجود ہیں جبکہ مصر میں صرف 54ہزار فلسطینی موجود ہیں جو دیگر ممالک کی نسبت سب سے کم تعداد ہے۔ ایسے میں اس طرح کے عنوان مناسب نہیں۔
انہوں نے مصر کی انقلابی تحریک کے دوران حماس کے اوپر مصری جیلوں کو کھولنے ، اسی طرح غزہ کے مصر ی بجلی کے بحران کا سبب بننے کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ ڈاکٹر ابو مرزوق نے مصری فوجی کونسل کی جانب سے رفح کراسنگ کے قریب مصری فوجیوں کے قتل کی کارروائی کے پیچھے حماس کی کارفرمائی کے الزامات کی بھی نفی کی۔ ڈاکٹر ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ مصر میں بجلی کے بحران کے پیچھے ایندھن کی کمی ہے اور ایندھن کی کمی کی وجہ غزہ نہیں بلکہ مصری گیس کی اسرائیل کو فراہمی ہے۔
حماس کے رہنما نے مصر اور غزہ کی پٹی پر کی جانے والے تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ حماس کے مرسی کے ساتھ تعلقات مصر کی داخلی دفاعی سیاست کا حصہ ہے جس کا ہم سے تعلق نہیں۔ غزہ اور مصری سرحد پر واقع کراسنگ کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ یہ راہداری صرف غزہ میں ضروریات زندگی کی ترسیل کی وجہ سے کھلی ہوئی ہے۔
اس موقع پر مصری صدر کے سابق مشیر محمد عصمت سیف الدولہ نے کہا کہ بہت سے عرب ممالک نے مسئلہ فلسطین کو ثانوی درجے میں رکھا ہوا ہے حالانکہ یہ معاملہ عرب فلسطینی تنازع میں اولین حیثیت کا حامل ہے۔ اس سب کی وجہ فلسطینی جماعتوں کے درمیان تقسیم بھی ہے۔