مرکزاطلاعات فلسیطن کے مطابق حماس رہ نما نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ’’فیس بک‘‘ پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مصری عدالت کو حماس کو دہشت گرد قرار دینے کا آئینی طور پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ حماس کے بارے میں کسی قسم کی درخواست پر غور کرنا ہی مصری عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں مصر کے دو وکلاء نے حماس اور اس کے عسکری ونگ پر پابندیاں عاید کیے جانے کے ساتھ ساتھ خالد مشعل اور اسماعیل ھنیہ کی مصری شہریت کی منسوخی کی بھی درخواست دی تھی حالانکہ ان کے پاس مصر کی شہریت سرے سے ہے نہیں۔ اس کے علاوہ ایک درخواست میں رفح گذرگاہ کو بند کیے جانے کابھی مطالبہ کیا تھا۔ تاہم مصر کی دیگر وکلاء قیادت نے مذکورہ مطالبات مسترد کر دیے تھے۔
ڈاکٹر ابو مرزوق نے کہا کہ حماس کے خلاف پچھلے دو سال سے مصرمیں سیاسی مہم جوئی جاری ہے۔ پہلے مصرکی سزمین پر حماس کی سرگرمیوں پرپابندی عاید کی گئی۔ اس کے بعد حماس اور اس کے عسکری ونگ کے اثاثے منجمد کیے گئے۔ اب حماس اور القسام بریگیڈ ہی کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ یہ تمام فیصلے سیاسی بنیاد پرکیے جا رہے ہیں جن کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس اپنے دفاع اور عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی صلاحیت نہیں رکھتی کیونکہ حماس مصر میں جاری شورش میں جب فریق ہی نہیں تو وہ اپنے دفاع کے لیے مصری عدالتوں میں کیسے جائےگی۔ انہوں نے کہا کہ مصرکی اسی عدالت نے کچھ عرصہ قبل اسرائیل کے بارے میں ایک فیصلہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر کرنا اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین