مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کی قومی سلامتی کے سابق ایڈوائزر عاموس یدلین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مصر کی عدالت کی طرف سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جانا حد درجہ اہمیت کا حامل ہے۔
خیال رہے کہ ہفتے کے روز قاہرہ کے قریب العابدین کے مقام پر قائم ایک مقامی عدالت کے جج محمد السید نے ایک درخواست پر فیصلہ صادر کرتےہوئے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔
عاموس یدلین اسرائیل کی ملٹری انٹیلی جنس کے ساتھ بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کے خلاف مصری عدالت کے فیصلے سے اسرائیل کے اس موقف کو تقویت ملی ہے کہ حماس اور اس کے عسکری ونگ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حماس کا سیاسی اور عسکری شعبہ دراصل دونوں ایک ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے سے اسرائیل کے اس دعوے کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ تنظیم معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث ہے۔
اسرائیل کے ایک دوسرے تجزیہ نگار ایلی ریکھس کا کہنا ہے کہ مصری صدر السیسی نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دلوا کر اسرائیل کو تنہائی سے نکال دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصری کے موجودہ فوجی پس منظررکھنے والے صدر فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی سابق مطلق العنان صدر حسنی مبارک سے زیادہ اسرائیل کےہمدرد اور ہمنوا ثابت ہوئے ہیں۔ حماس کوحسنی مبارک کے دور میں بھی دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا۔
قبل ازیں اسرائیلی وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبرمین نے حسب روایت زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ مصری عدالت کے فیصلے نے فلسطینی تحریک مزاحمت کے خلاف اسرائیل اور مصر کا خفیہ تعاون ثابت کردکھایا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین