اسرائیلی حکام نے اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘حماس’’ کے مغربی کنارے کے شہر الخلیل سے تعلق رکھنے والے دیرینہ رہ نما عبدالخالق النتشہ کو دس سال کی مسلسل اسیری کے بعد رہا کردیا۔
مغربی کنارے میں اپنے گھر پہنچنے پر النتشہ کا شاندار استقبال کیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سابق اسیر رہ نما نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے لیے جدو جہد جاری رکھوں گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق گروپ‘‘مرکز احرار’’ کے مندوب کے ساتھ بات کرتےہوئے عبدالخالق النتشہ نے کہا کہ میں سب سے زیادہ فلسطینیوں کےدرمیان مفاہمت کا خواہاں ہوں کیونکہ جب تک فلسطینی نمائندہ قوتیں آپس میں متحد نہیں ہوجاتیں غاصب صہیونی فلسطینیوں پر اسی طرح مظالم ڈھاتے رہیں گے۔ انہوں نے کہ میں جیل میں تھا جب میں نے سنہ 2006ء میں فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کا فارمولہ تیار کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ فلسطینی سیاسی جماعتوں نے میری تجاویز کو تسلیم کیا ہے۔ بعد ازاں اپنے گھر پر جمع ہزاروں شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے عبدالخالق النتشہ نے کہا کہ میں ابھی صہیونی دشمن کی جیل سےآیا ہوں۔ میرے پیچھے اب بھی میری طرح کے ہزاروں فلسطینی نوجوان ، بوڑھے، بچے اور خواتین پابند سلاسل ہیں۔ قوم کےان تمام ہیروز کا قوم کے نام صرف یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اسیران سمجھتے ہیں کہ ان کےخلاف ہونے والی نا انصافیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے وہ یہ کہ تمام فلسطینی ایک لڑی میں شامل ہو جائیں۔
خیال رہے کہ عبدالخالق النتشہ نے مجموعی طورپر 16 سال اسرائیل کی جیلوں میں قید کاٹی ہے۔ عبدالخالق 28ا گست 2002ء کو مغربی کنارے سے جلا وطن کیے جانے والے فلسطینی رہ نماؤں میں شامل تھے۔ اس وقت ان کی عمر چھپن برس ہے۔انہوں نے اکیس سال میں شادی کی لیکن شادی کے بعد وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ صرف پانچ سال رہے۔ ان کی اہلیہ ام جبیر کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کو کبھی شہر بدر اور کبھی صہیونی جیلوں میں قید ہی دیکھا ہے۔
رہائی کے وقت جیل کے باہر فلسطینیوں کی بڑی تعداد جمع تھی جو عبدالخالق النتشہ کو ایک جلوس کی شکل میں الخلیل میں ان کے گھر تک لائیں۔ جہاں پہلے سے جمع ہزاروں شہری ان کے استقبال کے لیے جمع تھے۔ انہوں نے اپنے استقبال کے لیے جمع ہونے والے ہزاروں شہریوں سے خطاب بھی کیا۔ شہریوں نے رہائی پرمبارک باد پیش کی،پھول کی پتیاں نچھاور کیں اور ہار پہنائے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین