حماس اور فتح کے مابین مفاہمت کے بعد قائم کی گئی مشترکہ بنیادی آزادیوں کی مانیٹرنگ کمیٹی کے رکن خلیل عساف نے دونوں جماعتوں سے صرف وعدوں پر اکتفا کرنے کے بجائے مفاہمت شقوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بالخصوص انہوں نے فلسطینی اتھارٹی سے مغربی کنارے میں مفاہمت پر عمل درآمد کے حوالے سے موجود رکاوٹوں کو ختم کرنے کی اپیل بھی کی۔
عساف نے کہا کہ مفاہمت پر عمل درآمد کے وعدے پر عمل کےاعتبار سے حماس فتح سے زیادہ بہتر ثابت ہوئی ہے۔ آخر کار فلسطینی قوم کو ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کونسی جماعت مفاہمت پر عمل کر رہی ہے اور کونسی نہیں۔
انہوں نے اب تک کی پیش رفت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی حکومت نے اس معاملے پر پیش رفت دکھائی ہے اور غزہ میں صدر محمود عباس کی رہائش گاہ کو فتح کا ہیڈ کوارٹر بنانے کے علاوہ غزہ میں اخباروں کی تقسیم کی بھی اجازت دے دی گئی ہے تاہم مغربی کنارے میں اب تک اخباروں کی ترسیل کی اجازت جیسے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
انہوں نے مغربی کنارے میں غزہ سے شائع ہونے والے اخباروں کی ترسیل کی اجازت پر فلسطینی اتھارٹی کے موقف کے حوالے سے بتایا کہ اتھارٹی کےمطابق یہ اجازت مغربی کنارے کی میڈیا کی وزارت دے گی۔ عساف کا کہنا تھا کہ اتھارٹی کے رویے اور اقدامات دیکھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ بالخصوص وہ اخبار جو مرحوم یاسر عرفات کے زمانے میں مغربی کنارے میں تقسیم ہوتے تھے ان پر بھی پابندی عائد ہے۔
آزادیوں کی مانیٹرنگ کمیٹی کے ترجمان نے بتایا کہ کمیٹی کا وفد غزہ کی فلسطینی حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ سے مل چکا ہے اور جلد مغربی کنارے کے صدر محمود عباس سے بھی تفصیلی گفتگو ہو جائے گی جس میں حالیہ تمام بحرانوں پر بات چیت ہو گی۔
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی سے مغربی کنارے میں سیاسی اختلافات کی پاداش میں گرفتار تمام افراد کو فی الفور رہا کرنے اور سکیورٹی فورسز کو سیاسی اسیران کی رہائی کے واضح احکامات دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
عساف نے امید ظاہر کی کہ اسماعیل ھنیہ کے بعد محمود عباس سے ملاقات کے بعد مفاہمت کمیٹی کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور شروع ہو جائے گا۔