(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کو غزہ سے واپس جانا ہوگا فلسطینی مزاحمت ہر اس خیال اور تجویز کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کررہی ہے جس کا مقصد غزہ میں قتلِ عام روکنا اور غزہ میں جاری نسل کشی کا خاتمہ ہو یہ سب کچھ ہمارے اصولی موقف اور قومی مطالبات پر سمجھوتے کے بغیر ہوگا۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں بدران نے کہاکہ حماس کو اب تک قطر اور مصر کے ثالثوں کے ذریعے کوئی باضابطہ تجویز موصول نہیں ہوئی جس میں فائر بندی یا غزہ میں جنگ کے اختتام کی بات کی گئی ہو۔انہوں نے کہا کہ میڈیا میں جو کچھ سامنے آ رہا ہے اس پر ہم باضابطہ جواب نہیں دے سکتے کیونکہ ہمارے مذاکرات کے حوالے سے واضح اصول اور بنیادیں ہیں یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ قابض اسرائیل کے ساتھ مل کر مختلف تجاویز اور افکار سامنے لا رہا ہے لیکن انہیں حتمی شکل دے کر ثالثوں کے ذریعے حماس کو پہنچانے میں وقت لگتا ہے ابھی تک جو باتیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ یا دیگر کے بیانات میں سامنے آئیں وہ صرف میڈیا تک محدود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات مکمل طور پر قومی ہیں ان پر فلسطینی دھڑوں کے ساتھ مشاورت ہوتی ہے اور ہم جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں قابض اسرائیل سکیورٹی اور ہتھیاروں کے بہانے کو نسل کشی جاری رکھنے کا جواز بناتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف روزانہ وحشیانہ جرائم کیے جا رہے ہیں۔
بدران نے کہا کہ حماس کے کوئی ذاتی مطالبات نہیں نہ قیادت کے لیے نہ کسی اور چیز کے لیے ہم صرف اپنی عوام کی خاطر مذاکرات کر رہے ہیں خاص طور پر غزہ کے ان شہریوں کے لیے جو روزانہ میڈیا کے سامنے اجتماعی قتلِ عام اور بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کے خلاف مزاحمت ہمارا جائز اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق حق ہے ہم نے ایک عظیم اور درندہ صفت عسکری مشینری کا مقابلہ اپنے مجاہدین کے سادہ مگر موثر ہتھیاروں سے کیا ہے۔
حماس رہنما نے کہا کہ جنگ کا واضح اور مکمل خاتمہ ہونا چاہیے اور قابض اسرائیلی فوج کو غزہ سے واپس جانا ہوگا۔بدران نے کہا کہ فلسطینی عوام دنیا کے سب سے باشعور، مہذب اور سیاسی طور پر بالغ قوموں میں سے ہیں ہمیں کسی بیرونی سرپرستی کی ضرورت نہیں فلسطین کے معاملات فلسطینی خود سنبھالیں گے اور یہی ایک درست راستہ ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ کسی بیرونی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ فلسطینی عوام پر اپنی مرضی تھوپے کہ وہ کس طرح اپنی قیادت منتخب کریں یا اپنے امور کو چلائیں۔