اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ جب تک ملک میں فضاء سازگار اور ماحول خوشگوار نہیں ہو گا، انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ لہٰذا پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی سیاسی فضاء کو خوشگوار بنانا ہو گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس رہ نما نے دمشق میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صدر محمود عباس کی جانب سے فلسطین میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان اس بات کا اعلان ہے کہ وہ ایک غیر اطمینان بخش اور بدنظمی کے ماحول میں انتخابات کرانا چاہتے ہیں۔ موجودہ حالات میں فلسطینی آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر مرزوق کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں جس طرح کا سیکیورٹی کنٹرول نافذ ہے اس کے ہوتے ہوئے محمود عباس خود بتائیں کہ آیا ان حالات میں اگر انتخابات ہوئے بھی تو وہ کتنے شفاف اور غیر جانب دار ہوں گے۔ خوف کی فضاء میں لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلتے ایسے میں انتخابات کا کیا فائدہ ہے۔
انہوں نے مغربی کنارے میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کے حماس کے کارکنوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کی اور کہا کہ محمود عباس کے زیرکمانڈ فورسز نے مغربی کنارے میں حماس کے زیرانتظام چلنے والے تمام ادارے بند کر دیے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صدر عباس نے حماس پرعوامی حمایت کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے۔
حماس کی تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے اور عباس ملیشیا نے حماس کے کارکنوں اور رہ نماؤں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہ نما نے کہاکہ غزہ میں حماس کی حکومت نےفتح کے تمام مطالبات پورے کیے ہیں۔ کسی قسم کا سیاسی کریک ڈاؤن نہیں ہو رہا لیکن اس کے باوجود مغربی کنارے میں حماس کے کارکنوں پر دائرہ تنگ کر دیا گیا ہے۔
فلسطینیوں کے مابین مفاہمت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حماس رہ نما نے کہا کہ ان کی جماعت مسلسل ملک میں مفاہمت کے قیام کی فوری ضرورت پرزور دیتی چلی آ رہی ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے نے قوم میں اتحاد کی کیفیت پیدا کی تھی جو تمام سیاسی جماعتوں کے لیے بھی مفاہمت کا ایک سنہری موقع تھا تاہم فتح نے مسلسل غیر سنجیدگی کا طرزعمل اپنا رکھا ہے جس کے باعث مفاہمت کا عمل بدستور تعطل کا شکارہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی خواہش پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر مرزوق نے کہا کہ محمود عباس کو فلسطینی قوم کے بجائے امریک اور اسرائیل کی فکر لاحق ہے۔ وہ امریکا کی ناراضگی سے بچنے کے لیے حماس کے ساتھ مفاہمت سے بھی اسی لیےگریزاں ہیں، کیونکہ حماس کے ساتھ مفاہمت سے امریکا اور اسرائیل ناراض ہوں گے۔