(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) امریکی ویب سائٹ Axios نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے غزہ میں حماس کی قید میں امریکی شہریت رکھنے والے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کے لئے اسرائیلی انتظامیہ کے علم میں لائے بغیر
حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے ہیں تاکہ ایک وسیع تر معاہدے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے جو جارحیت کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔
ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں دو ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ مذاکرات امریکی صدارتی ایلچی برائے قیدی امور، ایڈم بوہلر، نے کیے۔ یہ مذاکرات غیر معمولی تھے کیونکہ امریکہ نے 1997 میں حماس کو "دہشت گرد تنظیم” قرار دینے کے بعد کبھی بھی براہ راست اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے تھے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بوہلر اور حماس کی قیادت کے درمیان ملاقاتیں گزشتہ ہفتوں میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئیں جو انتہائی خفیہ تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ حماس سے نمٹنے کے طریقہ کار پر مشاورت کی، لیکن غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو ان مذاکرات کی تفصیلات دوسری ذرائع سے معلوم ہوئیں۔
ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کر دیا جس کے پیچھے وجوہات یہ تھیں کہ انہیں ان حساس ملاقاتوں پر بات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا ایک حصہ امریکی شہریت رکھنے والے قیدیوں کی رہائی پر مرکوز تھا، جو بوہلر کے دائرہ کار میں آتا ہے کیونکہ وہ امریکی حکومت کے یرغمالی امور کے ایلچی ہیں۔ تاہم، مذاکرات میں ایک وسیع تر معاہدے پر بھی بات ہوئی، جس میں تمام قیدیوں کی رہائی اور ایک طویل المدتی جنگ بندی شامل تھی تاہم ابھی تک کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں ہوا۔
ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس کے ایلچی اسٹیو ویٹکوف بھی اس ہفتے دوحہ کا سفر کرنے والے تھے تاکہ قطر کے وزیر اعظم سے جنگ بندی کے مذاکرات پر بات کر سکیں، لیکن انہوں نے منگل کی شام یہ دورہ منسوخ کر دیا جس کی وجوہات یہ بتائی گئیں ہیں کہ انہیں بتایا گیا کہ "حماس کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہورہی”۔
ویب سائٹ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کا طریقہ کار سابق صدر جو بائیڈن سے بالکل مختلف تھا، جس میں حماس کو مسلسل دھمکیاں دینا اور اہلِ غزہ کی جبری نقل مکانی کی تجویز شامل تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات، خاص طور پر غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی منظوری کے بغیر، ایک ایسا قدم ہے جو پچھلی امریکی انتظامیہ نے کبھی نہیں اٹھایا۔
رپورٹ کے مطابق، حماس کے پاس غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے 59 قیدی موجود ہیں، جن میں سے غیر قانونی صیہونی ریاست کا دعویٰ ہے کہ 35 ہلاک ہو چکے ہیں، 22 زندہ ہیں، جبکہ 2 کی حالت معلوم نہیں۔
ان میں سے پانچ قیدی امریکی شہریت رکھتے ہیں، جن میں 21 سالہ ایڈن الیگزینڈر بھی شامل ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ زندہ ہے۔
وائٹ ہاؤس نے ان مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ غزہ سے متعلق مذاکرات میں شامل امریکی ایلچی کو کسی سے بھی بات چیت کا اختیار حاصل ہے اور اس حوالے سے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل سے مشاورت کی گئی تھی۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق، امریکیوں نے حماس کو بتایا کہ وہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے پر بات چیت ہو سکے۔
مزید کہا گیا کہ: "امریکیوں نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ حسنِ نیت کے طور پر یرغمال بنائے گئے امریکیوں کو رہا کرے۔”
امریکی مذاکرات کی خبر سن کر غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور تنقید کی گئی۔ اس دوران، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم کے دفتر نے کہا: "ہم نے حماس کے ساتھ امریکی براہ راست مذاکرات کے بارے میں اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے۔”