حماس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے غیر ملکی خبر ایجنسنی رائٹرز کو بتایا کہ تحریک کو وٹکوف کی نئی امن تجویز پر اسرائیلی ردعمل موصول ہوا ہے، لیکن اس میں فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق، جنگ بندی، امداد کی فراہمی، اور مکمل انخلاء جیسے اہم نکات کا کوئی ذکر نہیں۔ اہلکار نے کہا”یہ ردعمل واضح طور پر قبضے کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش ہے، نہ کہ حقیقی حل کی۔”
نئی تجویز، پرانا رویہ؟
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب بدھ کے روز حماس نے تصدیق کی تھی کہ اسے ثالثوں کے ذریعے وٹکوف کی نئی تجویز موصول ہوئی ہے، جس پر تحریک نے ذمہ داری کے ساتھ غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ حماس کا کہنا تھا کہ وہ اس فریم ورک کا جائزہ لے گی جس کا مقصد ایک مستقل جنگ بندی، قابض افواج کا مکمل انخلاء، انسانی امداد کی بحالی، اور ایک آزاد فلسطینی انتظامیہ کے تحت غزہ کا نظم و نسق سنبھالنا ہے۔
تجویز میں یہ بھی شامل تھا کہ 10 صیہونی قیدیوں اور کچھ لاشوں کی واپسی کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی، جس کی ضمانت ثالثوں نے دی ہے۔
یورپی ردعمل اور سیاسی دباؤ
یہ صورتحال اس وقت اور بھی نازک ہو گئی ہے جب یورپی ممالک، خصوصاً فرانس، اسپین، جرمنی اور نیدرلینڈز نے غیر قانونی صیہونی ریاست پر کھل کر تنقید شروع کر دی ہے، اور کئی ممالک نے تجارتی تعلقات معطل کرنے اور پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی زور دیا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جانا ایک سیاسی اور انسانی ضرورت بن چکا ہے۔
مستقبل کی راہ؟
اگرچہ حماس نے فی الحال وٹکوف تجویز کا باضابطہ جواب نہیں دیا، لیکن ابتدائی ردعمل سے واضح ہے کہ جب تک صیہونی ریاست غزہ سے مکمل انخلاء، امداد کی آزادانہ ترسیل، اور فلسطینی خودمختاری جیسے مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی، کسی بھی تجویز کو سنجیدہ امن کی کوشش نہیں سمجھا جا سکتا۔
تحریک کا مؤقف بدستور یہی ہے:”ہمارا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق کا مکمل تحفظ اور غزہ پر صیہونی تسلط کا خاتمہ ہے، نہ کہ کسی عارضی سکون کی قیمت پر دائمی ذلت۔”