(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) قاہرہ میں جاری حالیہ مذاکرات ایک بار پھر اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے سفارتی پردے استعمال کر رہی ہے۔ پیر کے روز صیہونی وزیر برائے اسٹریٹجک امور، رون ڈرمر کی قیادت میں ایک اسرائیلی وفد نے قاہرہ کا دورہ کیا، جہاں اس نے جنگ بندی کے نام پر ایسی شرائط پیش کرنے کی کوشش کی جن کا مقصد دراصل غزہ کی ناکہ بندی کو برقرار رکھنا اور فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا تھا۔
صیہونی ریاست کی جانب سے مذاکرات میں غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ منگل کے روز ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار نے براہ راست جنگ بندی مذاکرات میں کسی بھی قسم کی پیش رفت کی تردید کر دی۔ یہ بیان مصری ذرائع کی اس اطلاع کے بعد سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات میں ایک "اہم پیش رفت” ہو چکی ہے اور معاہدہ قریب ہے۔
ادھر مصر کے دو سکیورٹی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ قاہرہ میں جاری مذاکرات میں طویل المدت جنگ بندی پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے، لیکن غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اب بھی حماس کے ہتھیاروں کو تنازع کی بنیاد بنا کر معاملات کو طول دے رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات میں ایک مصری اور ایک صیہونی وفد شامل ہے، تاہم اسرائیلی فریق کی نیت پر گہرے شکوک پائے جاتے ہیں، کیونکہ وہ انسانی امداد اور محاصرہ ختم کرنے جیسے بنیادی انسانی مطالبات پر بات کرنے سے گریزاں ہے۔
اسی دوران ایک اور اہم پیش رفت میں برطانوی اخبار دی گارڈین نے انکشاف کیا ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے ججوں نے پراسیکیوٹر کریم خان کو فلسطین کے مقدمے میں کسی بھی نئے گرفتاری وارنٹ کی تفصیل شائع کرنے سے روک دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ حکم اس وقت دیا گیا جب خدشات بڑھنے لگے کہ صیہونی جنگی مجرموں کے خلاف خفیہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا سکتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق آئی سی سی جلد ہی مقبوضہ فلسطینی علاقوں، خاص طور پر مغربی کنارے میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث صیہونی مجرموں کے خلاف ایک نئے عدالتی مرحلے کا آغاز کرنے والی ہے۔
یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نہ صرف فلسطینی عوام کے خلاف مسلسل جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہے۔ تاہم اب عالمی برادری اور عالمی عدالتیں بھی ان مظالم کا نوٹس لینے پر مجبور ہو رہی ہیں۔