ایک سال گذرجانے کےبعد بھی جنگ بندی کو وسعت دینے کے کسی فارمولے پرمزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے سیاسی و سیکیورٹی حالات پرگہری بصیرت رکھنے والے تجزیہ نگار علاء الریماوی نے جنگ بندی کے امکانات، خدشات اور حماس اور اسرائیل کے موقف پرمبنی ایک تجزیہ کیا ہے جسے مرکزاطلاعات فلسطین کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلے سال غزہ کی پٹی پرمسلط کی گئی جنگ کے بعد اسرائیل کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے اور غزہ کی پٹی کے فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ طویل اور وسیع البنیاد جنگ بندی کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتین یاھو نے مصر، قطر، ترکی اور بعض دوسرے چینلزکے ذریعے حماس کی قیادت سے بالواسطہ روابط کی کوشش کی، لیکن اسرائیل کی داخلی سیاسی کشاکش نے اس باب میں کوئی پیش رفت نہیں ہونے دی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسئلہ فلسطین پر کثیرالاطرف اثرات بھی موجود تھے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو تیار کرنے میں کچھ تکنیکی مشکلات کا بھی سامنا رہا۔ اسرائیل میں پارلیمانی انتخابات اور عالمی سطح پر اخوان المسلمون کے خلاف جاری ایک منظم سازش نے حماس اور اسرائیل کے درمیان روابط کو بھی متاثر کیا۔
ان تمام مشکلات نے حماس کو بھی ایک بحران سےدوچار کیا جس کے نتیجے میں حماس اور تحریک مزاحمت سے عوام کو بدظن کرنے کی بھی پوری کوشش کی گئی۔ ذیل میں چند نکات کے ذریعے اس مقدمے کی وضاحت ہوسکے گی۔
اول: فلسطینی ملٹری مزاحمت کے اہداف کو تبدیل کرکے لوگوں میں مایوسی پھیلائی گئی اور ایک نئے بحران کے افق کی راہ ہموارہوئی۔
دوم: یہ تاثر دیا گیا کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی اور عسکری نیٹ ورک کی موجودگی میں تعمیر نو اور محاصرے کے خاتمے میں مشکلات پیدا ہوں گے۔ یوں حماس کو اپنا نیٹ ورک ختم کرنے کے لیے دبائو میں لانے کی کوشش کی گئی۔
سوم: مسئلہ فلسطین کے حل میں دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں ایک ‘ایگری منٹ’ طے پانے کی کوشش کی گئی جس کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا کہ غزہ کا محاصرہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک غزہ میں سماجی انحطاط پیدا نہیں ہوجاتا۔
چہارم: غزہ کی پٹی میں جنگ کے بعد عالمی برادری کی فلسطینیوں کے ساتھ پیدا ہونے والی ہمدردی کو کچلنے کے لیے مزاحمت کے خلاف ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک نیا سونامی کھڑا کیا گیا۔
پنجم:غزہ کی تحریک مزاحمت کو عرب ممالک کی ان تنظیموں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی جو خطے میں دہشت گردی میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف عرب ممالک کی جنگ جاری ہے۔ ایسا اس لیےکیا گیا تاکہ غزہ اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں سرگرم مزاحمتی قوتوں کے خلاف بھی آپریشن کی راہ ہموار کی جاسکے۔
ششم: حماس اور تحریک فتح کے درمیان مفاہمت کی راہ میں مسلسل روڑے اٹکائے گئے تاکہ فلسطین کی مخلوط قومی حکومت کو عملا فلسطینیوں کی خدمت میں ناکام بنایا جاسکے۔
بحران کے حل میں حماس کا کردار
غزہ کی پٹی میں حماس کو دیوار سے لگانے کی صہیونی اور بعض دوسرے ممالک کی ریشہ دوانیوں سے حماس کی قیادت کو بھی یہ اندازہ ہوا کہ جماعت دشمن کے حلق میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ دشمن یہ تاثر دے رہا ہے کہ "غزہ حماس کے بغیر زیادہ بہتر ہے”۔یہ وہ تخیل ہے جس نے حماس کی قیادت کو غزہ کے عوام کے مسائل کے حل کی طرف زیادہ احسن طریقے سے متوجہ کیا۔ اس ضمن میں حماس نے حسب ذیل اقدامات کیے۔
اول: غزہ جنگ کے بعد نتین یاھو ایک نئی اندرونی مخالفت میں گھرگئے اور انہیں نے اپنی عوامی مخالفت کا زور توڑنے کے لیے حماس کے خلاف ذرائع ابلاغ کے منہ زور گھوڑے کو کھول دیا، لیکن نیتن یاھو کے اس سارے کھیل میں اسرائیلی عوام کا نقطہ نظر مختلف رہا۔ نتین یاھو نے یہ پیغام بھی دیا کہ وہ پارلیمانی انتخابات کے بعد غزہ جنگ کے بعد کے نتائج کو قبول کرلیں گے۔
دوم: مصر کے جزیرہ نما سینا میں جاری پرتشدد واقعات کو مصری ذرائع ابلاغ نے فلسطینی تنظیم حماس کے ساتھ جوڑنے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن مصری حکومت کو یہ بہ خوبی اندازہ ہے کہ اگر غزہ کی پٹی میں حماس سیاسی اور سیکیورٹی نظم ونسق متاثر ہوتا ہے تو جزیرہ نما سینا میں جاری جنگ متاثر ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس اور مصرکے درمیان کشدگی کی برف پگھلنا شروع ہوگئی۔ اگرچہ ایک مخصوص مصری لابی نے حماس کی قیادت کو دہشت گردوں میں شامل کرنے کی مقدور بھرکوشش کی مگر حماس کی مصری انٹیلی جنس حکام سے ملاقاتیں اور تعلقات کے نئے افق کے لیے کی جانے والی کوششوں سے حماس کے خلاف جاری گھنائونی سازش کو آگے بڑھانے میں خاطر خواہ رکاوٹ پیدا کی۔
سوم: غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے حماس کے حلیفوں بالخصوص ترکی اور قطر نے موثر اقدامات کیے۔ غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرنے کے لیے آنے والے ترک جہاز مرمرہ پراسرائیلی حملے اور غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ کے بعد اسرائیل نے بھی اپنی بعض غلطیوں کی اصلاح کی کوشش کی۔
چہارم: اسرائیل کو یہ یقین ہوگیا کہ حماس ایک مضبوط دفاعی اور فوجی قوت رکھتی ہے۔ اس لیے فلسطینیوں کے خلاف کسی مزید اشتعال انگیزی سے اجتناب ہی میں بہتری ہے۔
پنجم: حماس کی جانب سے اسرائیل کو لاحق سیکیورٹی خطرات کے بعد صہیونی حکومت کو خطرہ لاحق ہوا کہ وہ چاروں اطراف سے مخالفین میں گھر چکا ہے۔ نیتن یاھو یا اپنی دھمکیوں کے باوجود یہ بات سمجھ گئے کہ شام اور لبنان کی طرف سے بھی اسرائیل کو گھیر لیا گیا تو لبنان میں فلسطینی تحریک مزاحمت سے قبل والی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔
ششم: غزہ کی پٹی میں حماس کی سیاسی قوت کا لوہا دشمن نے بھی تسلیم کیا کیونکہ تمام تر وسائل کی کمیابی کے علی الرغم حماس نے فلسطینی قوتوں سے مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا اور عوام میں بھی اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا۔
آتش فشاں کو پھٹنے سے روکنے کے لیے اقدامات
اول: عالمی برادری نے غزہ کی پٹی میں حکمراں حماس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی۔ امریکا اور یورپ کی جانب سے بھی حماس کے بارے میں لچک دکھائی گئی۔ اس لچک نے غزہ کی پٹی کے مسائل کے حل کے لیے مزید امکانات پیدا کیے۔
دوم: یورپی ممالک کی جانب سے ٹونی بلیئرکے ذریعے غزہ میں جنگ بندی کو وسعت دینے اورغزہ کی تعمیر کی تجاویز سامنے آئیں۔
سوم:حماس کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کے حوالے سے بھی اعلیٰ سطحی سفارتی کوششیں کی گئیں۔
چہارم: غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کو وسعت دینے اور تعمیر نو کے لیے ترکی اور قطر کی جانب سے بھی مزید اقدامات کیے گئے۔
پنجم:غزہ کی پٹی کی غیر مشروط تعمیر نو کے لیے حماس کی تجاویز کو بھی قبولیت کا درجہ ملا اور فلسطینی اتھارٹی کو بھی غزہ کی تعمیر نو کے معاملے میں دبائو میں لانے کی کوشش کی گئی۔
پیش آئند خطرات
اول : موجودہ تازہ حالات کے پیش نظریہ خدشہ بھی ہےکہ تحریک فتح غزہ کی پٹی کے معاملات سے سبکدوش ہوجائے۔ حماس کو بھی بادل نخواسہ یہ صورت حال قبول کرنا پڑے۔ ایسے میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب خطرناک اقدامات کا بھی امکانات ہیں۔
دوم :غرب اردن میں سیاسی رجیم کے قیام کے لیے بھی پیش رفت کی جاسکتی ہے۔اگرایسا کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس یہ تنظیم آزادی فلسطین کی نگرانی میں ہوگا اور غزہ کی پٹی کو ایک مزحمتی بیس کیمپ کے طورپر باقی رکھا جائے گا۔
سوم: غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی صورت میں مختلف فلسطینی مزاحمتی تنظیموں میں عدم اتفاق کی صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
چہارم : اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے جاری سیکیورٹی تعاون کو مزید وسعت دینے کے بھی خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین