اسرائیل کے عسکری ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مصر میں ملک کی سب سے بڑی اور منظم مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کی بڑھتی مقبولیت پر اسرائیلی حکومت اور فوج میں سخت تشویش پائی جا رہی ہے۔
اسرائیل کے سیاسی اور حکومتی حلقوں میں اخوان المسلمون کی مقبولیت مسلسل زیربحث ہے۔ سیاسی حلقے یہ امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ مصرمیں پیش آئند پارلیمانی انتخابات میں اسرائیل کے بارے میں معاندانہ خیالات رکھنے والی جماعت اخوان المسلمون بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس کے براہ راست اثرات فلسطین پرپڑیں گے اور اسرائیل دشمن تنظیم حماس کی تقویت میں بھی اضافہ ہو گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی میڈیا میں آنے والی فوجی ذرائع کے حوالے سے بعض رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مصر اور اسرائیل کے باہمی تعلقات صرف اسی وقت تک معمول کے مطابق چلتے دکھائی دیتے ہیں جب تک ملک میں فوج کی نگرانی میں عبوری حکومت کام کرتی رہے گی۔ جب مصرمیں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت بنے گی تو اس کے بعد تل ابیب اور قاہرہ کے مابین تعلقات غیریقینی معلوم ہوتے ہیں۔
ذرائع کےمطابق اسرائیلی فوج نے مصرکے ساتھ اپنی سرحدوں کے ساتھ سیکیورٹی سخت کر دی ہے اور مصری جزیرہ نماء سینا میں سراغ رسانی کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ مصرمیں حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد ایسے لگتا ہے کہ مصرمیں سیکیورٹی کا خلاء پیدا ہوچکا ہے، جس کے منفی اثرات اسرائیل پربھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل انہی خطرات سے نمٹنےکے لیے سراغ رسانی کا عمل تیز کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ اس سال سابق مصری صدرحسنی مبارک کےخلاف عوام کے کامیاب انقلاب کے بعد اسرائیل اور مصرکے تعلقات میں بھی کئی نشیب فراز آئے ہیں۔ گوکہ مصر کی مسلح آرمی کونسل کی نگرانی میں قائم نگراں حکومت نے اسرائیل کے ساتھ تمام معاہدں پرعمل درآمد کا اعلان کیا ہے تاہم اسرائیل کئی مواقع پریہ خدشہ ظاہر کرچکا ہے کہ مصرمیں اخوان المسلمون کی کامیابی کی صورت میں دونوں ملکوں کےدرمیان تعلقات ختم ہوسکتے ہیں۔