اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر موسی ابو مرزوق نے کہا ہے کہ ان کی جماعت اپنی پالیسیوں پر گامزن رہے گی۔ حماس صہیونی دشمن سے مذاکرات کو مسترد کرتی ہے۔ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کے بارے میں بے بنیاد خبروں کے تناظر میں مرکز اطلاعات فلسطین کو ارسال اپنے خصوصی بیان میں موسی ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ "حماس، نے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہ کرنے کی اپنی پالیسی پر ہمیشہ کاربند رہے گی۔ ہم صہیونی دشمن کے ساتھ فلسطینی عوام کے حقوق کی سودے بازی پر کبھی مذاکرات نہیں کریں گے۔”
حماس کے مرکزی رہنما نے کہا کہ "ہر کوئی جانتا ہے کہ فلسطینی عوام کو اپنے ایشو عزیز ہیں۔ عوام، سب سے پہلا ایشو ہیں۔ مصر نے قیدیوں کے تبادلے میں حماس اور اسرائیل کے بالواسطہ مذاکرات میں قابل تحسین کردار ادا کیا۔ نیز ماضی میں ہونے والی (2006، 2008، 2009، 2012) کی جنگوں میں سیز فائر کے لئے بالواسطہ مذاکرات ایسی کھلی کتاب ہیں کہ جن کے بارے میں کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔
حالیہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف وزریوں سے متعلق مصری کردار کے بارے میں موسی ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ مصر نے اس ضمن میں وہی کردار ادا کیا جو اس سے قبل نارویجین، جرمن، سابق امریکی صدر جمی کارٹر اور دیگر اسرائیل اور مصر سے ملاقاتوں میں ادا کرتے چلے آئے ہیں۔ حماس کو ان مذاکرات کی تفصیل سے متعلق علم نہیں کیونکہ ہم ان مذاکرات میں تیسرے فریق کے طور پر شامل نہیں تھے۔
"ہمیں مصر سے ان مذاکرات میں ہونے والی گفتگو سے آگاہی کا انتظار ہے۔ اس کے بعد ہم انہیں اہم موضوعات پر اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے جن میں غزہ کے سمندر میں ماہی گیری کی حدود کا تعین، سرحدی کراسنگز سے سامان اور شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت، غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان سرحدی کراسنگ، بھوک ہڑتالی قیدیوں کا معاملہ، جلاوطنوں کے اہل خانہ، اسیران تبادلے کی روشنی میں اسرائیلی ذمہ داریاں، رہائی پانے والے اٹھارہ قیدیوں کی غرب اردن واپسی اور سب سے بڑھ کر سیز فائر لائن کے مغرب میں فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی مظالم اور سرحدی باڑ جیسے امور بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔”
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین