(روزنامہ قدس – آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ پر جاری اسرائیلی دہشتگردی 600 ویں دن میں داخل ہونے کے باوجود، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اور حماس کے درمیان کسی ممکنہ جنگ بندی یا قیدیوں کے تبادلے سے متعلق کوئی حتمی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے "جلد خوشخبری” کے مبہم دعوے کے بعد سیاسی اور عوامی سطح پر غیریقینی صورتحال مزید گہری ہو گئی ہے۔
نیتن یاہو نے دو روز قبل عندیہ دیا تھا کہ غزہ میں زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے متعلق "آج یا کل” کوئی مثبت خبر آ سکتی ہے، تاہم بعد میں انہوں نے اس بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے وضاحت کی کہ ان کے الفاظ کا مطلب "فوری طور پر نہیں بلکہ مستقبل قریب” میں کسی امید کی جھلک تھا۔ ان کے اس رد و بدل پر زیر حراست قیدیوں کے اہل خانہ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے دکھ اور جذبات سے کھلا مذاق قرار دیا۔
سیاسی منظرنامے میں دھند اور اختلافات
صیہونی ریاست کے عبرانی اخبار ہآرٹز کے مطابق، اسرائیل کی سیاسی قیادت کے اندر اس وقت تک حماس کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوئی واضح سمت موجود نہیں۔ ایک اسرائیلی حکومتی ذریعے کا کہنا ہے کہ "بات چیت تو جاری ہے، لیکن کسی فیصلہ کن موڑ تک پہنچنا اب بھی حماس کی رضامندی پر منحصر ہے۔”
حماس کی جانب سے یہ مؤقف برقرار ہے کہ کسی بھی معاہدے کے تحت غیر قانونی صیہونی ریاست کو غزہ میں جنگ کے مکمل خاتمے کی ضمانت دینا ہوگی، جبکہ اسرائیلی حکام جنگ روکنے کے بجائے محض عارضی جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔ امریکی انتظامیہ اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے غیر رسمی چینلز سے دونوں فریقین پر دباؤ ڈال رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق، امریکہ ایسے فارمولے پر غور کر رہا ہے جو دونوں فریقین کے لیے قابل قبول ہو، تاہم غیر قانونی صیہونی ریاست اب بھی صرف امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز پر بات کرنے پر آمادہ ہے، جس میں ابتدائی طور پر 10 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور 60 روزہ جنگ بندی شامل ہے، مگر اس میں جنگ کے مستقل خاتمے کی کوئی ضمانت موجود نہیں۔
قیدیوں کے اہل خانہ کا سخت احتجاج
دوسری طرف، تل ابیب اور دیگر اسرائیلی شہروں میں زیر حراست افراد کے خاندانوں نے احتجاج کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ بدھ کے روز مظاہرین نے تل ابیب کی مرکزی شاہراہ ایالون روڈ کو بند کرتے ہوئے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور کہا "ہمارے پیارے 600 دن سے حماس کی قید میں ہیں، اور غیر قانونی صیہونی ریاست کی ظالم حکومت انہیں اتحادی سیاست کے تحفظ کے لیے قربان کر رہی ہے۔”
مظاہرین نے پلوں پر سرخ رنگ سے "ہمارے بچوں کے خون” کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت کی بے حسی کو بے نقاب کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو نے قوم کی رہنمائی کے بجائے بین گویر اور سموٹریچ جیسے انتہا پسندوں کو چنا، جو غزہ میں جاری قبضے کو دوام دینے کے لیے قیدیوں کی رہائی کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں۔
خاندانوں کا مطالبہ ہے کہ تمام مغوی افراد کو "بغیر کسی تاخیر یا شرط کے” واپس لایا جائے اور غزہ میں جاری جنگ کو فوری طور پر بند کیا جائے تاکہ مزید خون خرابے سے بچا جا سکے۔