(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پر جاری صیہونی ریاست اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے مصر کے ذریعے موصول ہونے والی تجویز کا بڑی قومی ذمہ داری کے ساتھ مطالعہ کر رہی ہے۔ دوسری جانب، غیر قانونی صیہونی ریاست کے جنگی طیارے اب بھی غزہ کے مختلف علاقوں پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں بے گھر شہری شہید و زخمی ہو رہے ہیں، جو زندہ رہنے کی جدوجہد میں پھنسے ہوئے ہیں اور کسی قسم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
ایک باخبر فلسطینی ذریعے نے عربی نیوز ویب سائٹ العربی الجدید کو بتایا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست کی طرف سے پیش کی گئی تجویز میں 45 روزہ جنگ بندی شامل ہے، جس کے تحت حماس ہر دوسرے دن پانچ زندہ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جب کہ اس کے بدلے میں عمر قید کاٹنے والے 66 فلسطینی قیدیوں اور 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ سے گرفتار کیے گئے 611 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
تجویز کے تحت جنگ بندی کے دوران رفح اور شمالی غزہ میں 2 مارچ کو تعینات کی گئی غیر قانونی صیہونی افواج کو ان کی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹایا جائے گا، اور اسی عرصے میں مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔
تاہم، حماس کے ایک سینئر رہنما نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قاہرہ میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں جو خاکہ پیش کیا گیا، وہ تحریک اور دیگر فلسطینی دھڑوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ العربی الجدید کو دیے گئے خصوصی بیان میں رہنما نے واضح کیا کہ مجوزہ معاہدہ فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی کوشش ہے اور اس میں نہ تو جنگ کے خاتمے کی ضمانت دی گئی ہے اور نہ ہی غزہ کے تمام علاقوں سے غیر قانونی صیہونی ریاست کی افواج کے مکمل انخلاء کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
تحریک کے ایک اور اہم ذریعے نے اس تجویز کو فلسطینی اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں نہ صرف مزاحمت کی تخفیف شامل ہے بلکہ پہلے ہفتے میں نصف زندہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، جو کہ فلسطینی عوام کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ "مزاحمتی ہتھیار ہماری سرخ لکیر ہیں، اور ان سے دستبرداری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
ادھر حماس نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ وہ بڑی قومی ذمہ داری کے تحت ثالث ممالک کی جانب سے پیش کردہ تجویز کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے، اور ضروری مشاورت مکمل ہونے کے بعد جلد از جلد اس پر باضابطہ ردعمل پیش کیا جائے گا۔