(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) مصر کے ذرائع نے عربی نیوز ویب سائٹ”العربی الجدید” کو بتایا کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے اسلامی اور یہودی تعطیلات کے دوران جنگ بندی پر نئے تجویز کو قبول کر لیا ہے، جس سے امداد کی فراہمی ممکن ہو گی اور فائر بندی کے معطل معاہدے کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا آغاز بھی ہو گا۔
ان ہی ذرائع کے مطابق، حماس نے امریکی فوجی، عیدان الیگزینڈر، اور دیگر چار حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے، جن میں بعض زندہ ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اب گیند غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اور امریکی حکومت کے کورٹ میں ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس نے حال ہی میں امریکی انتظامیہ کی جانب سے پیش کردہ تجویز کو مسترد کر دیا ہے جس میں حماس کے فوجی شوریٰ کی قیادت اور ان کے خاندانوں کے ساتھ غزہ سے باہر جانے کی پیشکش کی گئی تھی، اس پیشکش میں قیادت کے اہم رہنماؤں اور القسام کے کمانڈرز کو مالی مراعات اور بیرون ملک رہائش شامل تھی جبکہ یہ ضمانت بھی دی گئی تھی کہ انہیں بیرن ملک میں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اس پیشکش میں کتائب القسام کے تمام اعلیٰ قیادت کو شامل کیا گیا تھا، اور اس کے بدلے انہیں دو ارب ڈالر تک کی رقم دی جانی تھی، جو ان کی فوجی درجہ بندی کے مطابق تقسیم کی جانی تھی۔
امریکی تجویز کے مالی اسپانسرز کا ابھی تک کوئی واضح تعین نہیں ہو سکا ہے، مگر تمام اشارے علاقائی قوتوں کی طرف ہیں۔ امریکی طرف سے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ تجویز میں شامل ہونے والے اعلیٰ قیادت میں حماس کے رہنما یحییٰ السنوار کے بھائی محمد السنوار، رفح کے کمانڈر محمد شبانہ اور غزہ کے کمانڈر عزالدین حداد شامل ہوں گے۔ تجویز میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ حماس کی جانب سے اپنے تمام ہتھیاروں کو ترک کرنے کے بدلے انہیں مالی معاوضہ دیا جائے گا۔
حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا، کیونکہ اس میں ہتھیاروں کی ترک کے ساتھ ساتھ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے مکمل قبضے کے خاتمے کا وعدہ کرنے کی شرائط بھی رکھی گئی تھیں، جس کے نتیجے میں جنگ میں اسرائیلی فوج کی شکست تسلیم کی جاتی۔ حماس کی قیادت نے اس فیصلے کو اس بات پر مبنی قرار دیا کہ وہ اپنے مزاحمتی اصولوں پر قائم ہیں اور مکمل طور پر غزہ سے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے انخلا تک جنگ بندی یا کوئی مفاہمت نہیں کریں گے۔
غزہ میں حالیہ مظاہروں کے بارے میں ایک حماس رہنما نے کہا کہ تنظیم نے ان مظاہروں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کی تجویز کو رد کر دیا ہے، اور مظاہرین کو احتجاج کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے مزاحمتی قوتوں اور سیکیورٹی فورسز کو بھی ہدایت کی کہ مظاہرین کو کسی بھی صورت میں نقصان نہ پہنچایا جائے۔